کیا بے مروتی کا شکوہ گلہ کسی سے
کیا بے مروتی کا شکوہ گلہ کسی سے
خود ہم نے کب وفا کی اپنے سوا کسی سے
اس ہاتھ سے وصولی اس ہاتھ سے ادائی
پہنچا دیا کسی کو جو کچھ ملا کسی سے
معلوم ہے ہمیں ہم کتنے پڑھے لکھے ہیں
یہ سن لیا کسی سے وہ سن لیا کسی سے
اس دور میں کہاں یہ آزادئ عمل تھی
چوری چھپے ہمارا تھا سلسلہ کسی سے
سب ایک دوسرے کی ہر بات جانتے ہیں
مخفی نہیں کسی کا اچھا برا کسی سے
تم ہی خلوص دل سے آ جاتے ہو شعورؔ اب
ملتا ہے کون ورنہ بے فائدہ کسی سے