خلائی بُلبُلے: گرین ہاؤس ایفیکٹ کا بہترین اور موئثر حل
گزشتہ دنوں میسوچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محققین کی ایک ٹیم نے بڑھتی ہوئی آلودگی سے پیدا ہونے والے بہت بڑے مسئلے گرین ہاؤس ایفکٹ کو وقتی طور پر کم کرنے کے لیے ایک اچھوتا حل تجویز کیا ۔ اس ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ گرین ہاؤس ایفکٹ چونکہ سورج سے آنے والی نقصان دہ شعاعوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ زمین اور سورج کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل کی جائے جو ان الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکے ۔ اس مقصد کے لیے زمین اور سورج کے درمیان سپیس ببل کی شیلڈ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔
حالیہ برسوں میں کلوروفلوروکاربنز کی بڑھتی ہوئی مقدار نے زمین کے گرد موجود قدرتی طور پر پائے جانے والے اوزون کے حفاظتی غلاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
گرین ہاؤس ایفکٹ کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے برسوں سے سائنس دان ایسے طریقوں پر غور کر رہے ہیں جن کے ذریعے سورج سے آنے والی ان نقصان دہ شعاعوں کو روکا جا سکے ۔ اسی کی دہائی میں اس سلسلے میں پہلی تجویز سامنے آئی کہ سورج کی ریڈی ایشن کو روکنے کے لیے ایک بہت بڑی سپیس چھتری کا استعمال عمل میں لایا جائے ۔ اسی آئیڈیے پر مزید کام کرتے ہوئے سائنس دان حالیہ تجویز تک پہنچنے ہیں ۔ پروفیسر کارلو رتی (Carlo Ratti) جو سپیس ببل کا نظریہ پیش کرنے والی اس ایم آئی ٹی کی ٹیم کا کا حصہ ہیں اس حوالے سے کہتے ہیں:
"We believe that advancing feasibility studies of a solar shield to the next level could help us make more informed decisions in the years to come should geoengineering approaches become urgent."
سپیس چھتری کی طرح ماضی میں ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی تھی کہ زمین اور سورج کے درمیان ایک ایسے مقام پر جہاں زمین اور سورج کی گریوی ٹیشنل فورسز ایک دوسرے کو کینسل کر دیتی ہیں، ایک 2000 کلومیٹر چوڑی شیشے کی دیوار حائل کردی جائے جس کے لیے درکار سیلیکان چاند کی سطح سے مہیا کی جائے ۔ یہ خلائی دیوار سورج کی روشنی کی کچھ مقدار کو واپس منعکس کر کے اُن شعاعوں کی شدت کو کم کر دی گی جو زمین تک پہنچیں گی۔ یوں زمین کے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکا جائے گا ۔
شیشے کی اس دیوار کے بعد اس سے ملتی جلتی کئی ایک دیگر تجاویز بھی زیر بحث آئیں جن میں ہائیڈروجن گیس سے بھرے ایلومینیئم کے غبارے اور گرد و غبار کے ایک مصنوعی ہالے کی زمین کے گرد تخلیق بھی شامل ہے جو زمین کو سیٹرن سیارے کا منی ایچر بنا دے گی ۔
ان تمام تجاویز کے قابل عمل ہونے کے امکانات کو زیر بحث لانے کے بعد لانے کے بعد اب سائنس دان تازہ ترین سپیس بلبلوں سے بنی اس شیلڈ کی تجویز تک پہنچے ہیں ۔ اس شیلڈ کا سائز برازیل ملک کے سائز کے برابر تجویز کیا جا رہا ہے ۔ یہ بلبلے جو اس شیلڈ کی تشکیل کے لئے استعمال ہوں گے وہ پگھلی ہو سیلیکان سے بنے ہوئے ہوں گے ۔ ان بلبلوں کی ماس ۔ڈینسٹی 1.5 گرام فی مربع میٹر ہو گی ۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ شیلڈ سورج کی شعاعوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.8 فی صد کم کر دے گی ۔ ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ انتہائی باریک بلبلے تین ہزار ایٹماسفیئر پریشر اور منفی پچاس درجہ حرارت پر وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ابھی اس تحقیق پر کام جاری ہے جو مزید فنڈز کی دستیابی سے مشروط ہے ۔
گرین ہاؤس ایفکٹ انسان کا اپنا پیدا کیا ہوا مسئلہ ہے ۔ جنگلات کا بے دریغ صفایا، اپنی ذاتی سواری کے شوق میں پیٹرول اور گیس پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافے اور انڈسٹری کے فروغ کے نتیجے میں انڈسٹریل ویسٹ اور دھوئیں سے فضا کو آلودہ کرنے کے نتیجے میں ہم نے اوزون کی تہہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے مزید یہ کہ دھویں اور آلودگی کے یہ بادل سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین کے ماحول میں ہی قید کر کے واپس جانے سے روکتے ہیں ۔ جس سے زمین کا درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے ۔ اس مسئلے کا دیر پا حل زیادہ سے زیادہ شجرکاری اور فضائی آلودگی پیدا کرنے والے عناصر کی کمی ہی ہے ۔ سپیس شیلڈنگ کے طریقے تاہم وقتی طور کارگر ثابت ہو سکتے ہیں اگر یہ کامیابی سے تکمیل تک پہنچائے جا سکیں تو۔۔۔!