کیا واقعی موجودہ حکومت ختم کرکے نئے انتخابات اکتوبر میں کروائے جائیں گے؟؟
کیا واقعی موجودہ اتحادی حکومت ختم ہونے والی ہے؟ اور کیاواقعی ملک میں نئےانتخابات اس سال اکتوبر میں ہونے والے ہیں۔؟ کیا کوئی ’نرم مداخلت‘ کی جارہی ہے، کیا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کچھ شرائط کے مطابق مذاکرات اور نگران سیٹ اپ کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ؟؟
یہ سب سوالات پاکستان کے ہر شہری کو اس وقت پریشان کررہے ہیں اور اس پریشانی میں اضافہ سیاست دانوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے چند حالیہ بیانات سے ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام تو اس وقت سامنے ہی ہے اور پنجاب میں جس انداز سے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے باوجود عمران خان اور ان کےاتحادی اپنی حکومت بنانے میں ناکام رہے یا پاکستانی سیاست کے سب سے کائیاں شخص آصف علی زرداری نے انہیں ناکام کردیا، اس سے اس سیاسی عدم استحکام اور بحران میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔
عموماً ہمارے ہاں سیاسی میدان میں افواہیں تو سرگرم رہتی ہیں اور ان افواہوں کو بعض اوقات مخصوص مقاصد کے تحت بھی پھیلایا جاتا ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہےکہ اس بار یہ افواہیں نہیں بلکہ ان میں کافی کچھ حقیقت بھی ہے۔ چنانچہ چند سیاست دان اسی کو بھانپتے ہوئے یا معلومات رکھتے ہوئے ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے سمجھ دار شہری بہت کچھ سمجھ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ابھی دو روز پیشتر پوری عدم اعتماد تحریک کی قیادت کرنے والے لیکن اتحادی حکومت بننے کے بعد سے عملاً روپوش رہنےوالے مولانا فضل الرحمن کا بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا، ان کا کہنا ہے کہ حکومت کوہدایات پر چلانے کی کوشش نہ کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہدایات قبول کرنے کا کہا جاتا ہے اور ہدایات قبول نہ کرنے کی صورت میں بحران پیدا کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، یہ سب سیاست دانوں کو قبول نہیں۔ بہرحال مولانا ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں کیا قبول ہوتا ہےاور کب قبول ہوتا ہے اور کب انہیں کچھ بھی قبول نہیں ہوتا۔ اسی طرح مولانا کے بیان سے ایک روز قبل ن لیگی رہنما طلال چوہدری کا بیان بھی اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع ہوا ہے کہ سیاست دانوں کو اپنے انداز اور اپنی فہم کے مطابق سیاست کرنے کی جائے، انہیں زبردستی گھسیٹ کر الیکشن میں نہ لے جایا جائے۔ ان کے مطابق ایسی کوششیں کی جارہی ہیں جن کے ذریعے اتحادی حکومت کو نئے الیکشنز کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ اسی انداز سے کچھ ملتی جلتی باتیں ن لیگی رہنما سعد رفیق نے بھی چند روز پہلے کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ عمران خان کی مسلسل سرپرستی کررہے ہیں۔
ان سب بیانات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی بیان اپوزیشن یا عمران خان کی طرف سے جاری نہیں ہوا بلکہ یہ حکمران اتحاد کے بیانات ہیں۔ عام قاری ان کا ایک مطلب یہ بھی لے سکتا ہے کہ موجود حکومتی سیٹ اپ چونکہ معاشی اور اقتصادی محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اس سے نہ آئی ایم ایف راضی ہوسکا ہے اور نہ عوام۔ اب یہ اپنی ناکامی کو بوجھ اپنے کندھوں سے اتار کر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پرڈالنا چاہتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے میں پی ٹی آئی کی جیت اور اس کے بعد ہونےوالے واقعات نے عملاً تو یہ فضا پیدا کردی ہے کہ اب نئے انتخابات کے علاوہ ملک کو سیاسی و اقتصادی بحران سے نکالنے کا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اب چونکہ اتحادی حکومت کو یہ نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے جس کو لانے میں ان کی اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں کا بھی دخل ہے،لہٰذا ان کا خیال ہےکہ اپنے پرانے بیانیے پر واپس جاکر اداروں کو ایک مرتبہ پھر بدنام کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ دراصل ہمارے ملک کے سیاست دانوں کا وطیرہ ہی بن گیا ہے ، کامیاب ہوئے تو سب اچھا، ناکام ہوئے تو اپنی ناکامی کا ملبہ اداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔
بہرحال وجہ کوئی بھی ہو، اب اتحادی پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہونے اور نگران سیٹ اپ بننے کی باتیں افواہوں سے بڑھ کر خبر بنتی جارہی ہیں۔ معروف تجزیہ نگار انصار عباسی کے مطابق پنجاب کی وزارت اعلیٰ میں پیدا ہونے والی شدید سیاسی بدمزگی نے پاکستان کے ہر مخلص شخص نے پریشان کررکھا ہے، چنانچہ کچھ سیاست دانوں نے نرم مداخلت یا آسان الفاظ میں مدد کے لیے اداروں سے رابطہ کیا ہے۔کہاجارہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ تو فوری طور پرحمزہ شہبازکوفارغ کرنے والی تھی،لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوروز فیصلہ روکنے اور سب جماعتوں سے مشاورت کرنے کے لیے مہلت طلب ہے۔اب ہوسکتا ہے کہ اگلے ایک دو روز میں ہی، یعنی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ ہونےسے پہلے ہی قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے نگران سیٹ اپ تشکیل دے دیا جائے اور اکتوبر یا نومبر میں نئے انتخابات کروادیے جائیں۔ جو بھی ہو، ہماری دعا ہےکہ ہمارے سیاست دان ہوش کے ناخن لیں،اداروں کو بدنام کرنے کی بجائے اپنے اندر ملک و قوم سے وفاداری اور خلوص پیدا کریں اورمل جل کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی کوشش کریں۔