شہابِ ثاقب زمین کے لیے خطرہ کیوں ہیں؟

       کیا آپ نے کبھی آسمان پر آگ برساتے ستاروں کا نظارہ کیا ہے؟ یہ ٹوٹتے یا آگ برساتے ستارے دراصل شہابِ ثاقب یا شہابیے کہلاتے ہیں۔ یہ ہماری زمین پر کہاں سے آتے ہیں؟ کیا یہ ہمارے لیے کسی طرح خطرہ بن سکتے ہیں؟ کیا ڈائنوسار بھی شہابیوں کے طوفان سے معدوم ہوگئے؟ آئیے ان سوالات کی کھوج لگاتے ہیں:

             یہ شاید 1994کی بات ہے جب ہم آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔اُن دنوں اخبارات اور ٹی وی خبروں میں ایک واقعے کا بڑا چرچا ہوا تھا کہ ایک دمدار ستارے کے کوئی درجن بھر ٹکڑے مشتری کی سطح پر گرنے والے تھے۔"لیوی شومیکر " نامی دمدار ستارے کے ان ٹکڑوں کے مشتری سے ٹکرانے سے زمین پر بھی خاصی ہلچل مچ گئی تھی اور اخبارات میں قیامتِ صغریٰ کے نام سے عوام میں خاصا خوف وہراس پھیل گیا تھا۔گویا کہ ساٹھ کروڑ کلومیٹر دور واقع مشتری کی سطح پر پتھروں کے ٹکرانے سے زمین پر خوفناک تباہی واقع ہو جانا تھی۔ہمیں یاد ہے کہ تصادم والی وہ رات کئی افراد نے گھروں کی چھتوں تلے سونے کی بجائے کھلے آسمان تلے گزاری تھی کہ مبادہ زلزلہ سے مکانات نہ گر جائیں۔خیر وہ رات تو بخیروعافیت گزر گئی لیکن اس واقعے سے عوام کی سائنسی پسماندگی اور صحافیوں کی کم علمی ضرور سامنے آگئی۔

            بہرحا ل اس واقعے کے بعد ماہرین کے ذہنوں  میں موجود ایک خدشہ زیادہ شدت سے ابھر آیا کہ اگر ایسا ہی کوئی واقعہ ہمارے اپنے کرہ ارض کے ساتھ پیش آگیا تو کیا ہوگا۔مشتری تو اپنی جناتی جسامت کی بدولت یہ دمدار ستارہ بآسانی ہضم کر گیا  لیکن کیاہماری یہ ننھی منی زمین کسی دمدار ستارے یا بھاری بھر کم شہابی پتھر سے ایسا کوئی تصادم برداشت کر سکتی ہے؟اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ گرنے والے شہابیےکی جسامت کتنی ہوگی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں زمین سمیت تمام سیاروں پر دمدار ستارے اور بڑے بڑے شہابی پتھر گرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ویسے تو زمین پر کئی شہاب ثاقب گرتے رہے ہیں لیکن ان میں سے چند ایک کے اثرات ابھی تک زمین پر موجود ہیں۔

ڈائنو سارز کی یکلخت تباہی کیسے ہوئی؟

ہم جانتے ہیں کہ زمین پر قریباََ چار کروڑسال قبل ڈائنوسارز جیسے کئی دیوہیکل جانور رہا کرتے تھے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی یکلخت معدومیت کا باعث ایک بہت بڑاشہاب ثاقب تھا جو چار کروڑسال قبل زمین سے ٹکرایا اور زمین پر آباد تمام بڑے بڑے جانور نابود ہو گئے۔

 

           ایریزونا اور کینیڈا میں پائے گئے چارسو میٹر قطر کے دوگہرے گڑھوں کے بارے میں بھی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ بھی کسی شہاب ثاقب کے ٹکراؤ سے وجود میں آئے ہیں۔جبکہ ماضی قریب میں ایسا حادثہ 30جون1908کو پیش آیا جب ایک دہکتا ہوا شہاب ثاقب روس کے علاقے سائبیریا میں واقع جنگل پر گرا جس سے پورا علاقہ جل کر خاکستر ہوگیا۔ آج دنیا کی آبادی بہت بڑھ چکی ہے اور آبادی والے کسی علاقے میں ایسے کسی حادثے کا مطلب لاکھوں افراد کی یقینی ہلاکت ہے۔

  یہ شہابیے کہاں سے آتے ہیں؟  

            ہم جانتے ہیں کہ مریخ اور مشتری کے درمیان ایک شہابی پٹی(ایسٹرائیڈ بیلٹ)موجود ہے جس کی چوڑائی تقریباََ ایک لاکھ کلومیٹر ہے۔اس پٹی میں بلا مبالغہ کروڑوں شہابی پتھر سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔کبھی کبھار کوئی سرپھرا پتھر اس مدار سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور خلا میں آوارہ گردی کرنے لگتا ہے۔چونکہ اس پٹی کے قریب ترین سیارے مریخ اور مشتری ہیں لہٰذا ان آوارہ شہابیوں کا زیادہ تر نشانہ یہی بنتے ہیں۔

            اس شہابی پٹی کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دراصل ایک سیارے کی تشکیل کے لیے جمع ہونے والا مواد تھا لیکن مشتری کی زبردست کشش کی وجہ سے یہ ٹکڑے جمع نہ ہوسکے اور پارہ پارہ ہو کر سورج کا طواف کرنے لگے۔

خلائی ماہرین کا  کہنا ہے کہ نظام شمسی ایک بہت مصروف شاہراہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک خطرناک جگہ پر رہ رہے ہیں جہاں آوارہ لیکن خطرناک شہابیوں کی ایک بڑی تعداد ہماری ہمسائیگی میں موجود ہے۔ایسے اجسام پر مسلسل نظر رکھنا بہت مشکل کام ہے جبکہ انھیں زمین پر گرنے سے روکنا اور بھی زیادہ مشکل کام ہے۔

 

زمین کے لیے کتنا خطرہ ہے؟

آپ نے مشہور زمانہ مووی "آرماگیڈون" (Armageddon) تو ضرور دیکھی ہو گی۔ اس میں زمین کے طرف بڑھتے ہوئے شہابیوں کے ایک طوفان سے زمین کو بچاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اگرچہ اس انوکھے تصور پر فلم کے ڈائریکٹر مائیکل بے نے بعد میں باقاعدہ معذرت کر لی کہ خلا میں ایسا کوئی شہابی طوفان موجود نہیں ہے۔ یعنی یہ ایک غیر سائنسی تصور تھا۔ بہرحال ان کی معذرت بھی ایک بہت اعلیٰ اخلاقی مثال ہے۔

ناسا کے ایک سینئر خلا ئی ماہر رسل شیوی کارٹ کا کہنا ہے کہ خلا میں بھٹکتے ہوئے سینکڑوں بڑے بڑے شہابیوں کے مطالعے سے ہمیں کچھ شہابیےایسے ملے ہیں جوزمین کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگلے دس سال کے اندراندر ایسی ٹیکنالوجی وضع کر لیں جو ایسے شہابیوں کا راستہ موڑنے یا انھیں تبا ہ کرنے کے لیے استعمال ہو سکے۔

            ان شہابیوں میں زیادہ خطرناک" ایپوفس "(Apophis) نامی شہابیہ تقریباََ400میٹر قطر کا حامل ہے اور وہ 2029میں زمین کے قریب آئے گا۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق یہ زمین کے ارض ساکن سیارچوں کے مدار میں بھی گھس سکتا ہے۔یہ اتنا قریب سے بھی گزر سکتا ہے کہ شاید اسے ننگی آنکھ سے بھی دیکھنا بھی ممکن ہو جائے۔ 2029 میں یہ زمین سے محض چند سو میٹر کے فاصلے سے گزرجائے گالیکن 2036میں اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگرچہ یورپی خلائی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق 2036میں بھی اس ٹکراؤ کا امکان24000میں سے ایک ہے تاہم اس قسم کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے مشن کی تیاری ناگزیر ہے۔

            ماہرین کا خیال ہے کہ400میٹر قطروالے کسی شہابیےکے ٹکراؤ سے محدود اثرات پیدا ہوں گے۔تاہم اگر کوئی اس سے دوگنی جسامت کا بڑا شہابیہ زمین سے ٹکرایا تو اس سے ہیروشیما پر گرائے گئے کئی ایٹم بموں کے برابر توانائی پیدا ہوگی۔اس سے ہونے والا نقصان ایک صدی پر محیط ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات بھی عالمگیر نوعیت کے ہوں گے۔

اس عالمی خطرے کا تدارک کیسے کیا جائے گا؟

            شیوی کارٹ کا کہنا ہے کہ زمین کے قریبی اجسام(Near Earth Objects=NEOs)سے زمین کی حفاظت کا معاملہ کسی ایک ملک یا ادارے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے ابتدائی طور پر ایسوسی ایشن آف سپیس ایکسپلوررز(ASE)اور پروفیشنل آرگنائزیشن آف ایسٹرا ناؤٹس نے مل کر ایک کمیٹی بنائی ہے جو NEOsپر کام کرے گی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین شیوی کارٹ ہیں۔اس کمیٹی کا مقصد زمین کی طرف آنے والے کسی ایسٹرائیڈکو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے ٹیکنالوجی وضع کرنا ہے۔

            ایسا ہی ایک اور پروگرام،روس کے علاقے سائبیریا میں 1908میں گرنے والے شہاب ثاقب کے سو سال مکمل ہونے پر،پلانیٹری سوسائٹی نے بھی شروع کیا ہے۔اس منصوبے کا نام”ٹارگٹ ارتھ“ ہے۔اس منصوبے کا مقصد بھی NEOsسے تحفظ حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کرنا ہے۔ NEOگرانٹ مشن کے تحت یہ سوسائٹی ایسے محققین کو فنڈز دیتی ہے جو شہاب ثاقب کو دریافت کرتے ہیں اور خاص طور پر اس کے راستے کی درست نشاندہی(Tracking)کرتے ہیں۔اس فنڈنگ کا اصل مقصد ایسے طریقے دریافت کرنا ہے جن سے زمین کے لیے کسی بھی خطرناک جسم کو اس کے راستے سے ہٹایا یا تباہ کیا جاسکے۔

            پلانیٹری سوسائٹی نے ایپوفس نامی شہابیے(جو2029یا2036میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے)سے نمٹنے کے لیے ایک انعامی مقابلے کے انعقاد کیا ہے۔50ہزار ڈالر کا یہ انعام اس ادارے یا فرد کو دیا جائے گا جو اس مشن کے لیے بہترین ڈیزائن تیار کرے گا۔اس مشن کا مقصد زمین کی طرف آتے کسی شہابیےکو نشان زدہ کرنا (Tagging)،اس کے راستے کی درست ترین نشاندہی کرنا(Tracking) اور اس بات کی یقینی جانچ کرنا ہے کہ کیا واقعی یہ جسم زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔اس طرح بڑے خلائی اداروں کو اس بات کے لیے مدد ملے گی کہ آیا واقعی کسی شہاب ثاقب کو اس کے مدار سے ہٹانے یا تباہ کرنے کے لیے واقعی مشن بھیجنا ضروری ہے یا نہیں؟اس مشن کے لیے 19ممالک کی طرف سے37مقابلہ کنندگان کوشش کررہے ہیں۔

            تاحال ناسا کے پاس کسی شہابیےکو منحرف کرنے(یعنی اس کا راستہ تبدیل کرنے)کا کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں ہے۔اس لیے فی الحال ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی(ESA)کے ماہرین پلانیٹری سوسائٹی کے اس مقابلے میں پیش کئے گئے مختلف نمونوں کا مطالعہ کریں گے اور بہترین ڈیزائن کا انتخاب کریں گے۔

کسی شہابیےکو نشان زدہ (Tag)کرنے اور اسکے راستے کا تعین کرنے(Track)کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس پر باقاعدہ نظر رکھی جا سکے اور زمین سے اس کے فاصلے کو مسلسل ریکارڈ کیا جاسکے۔اب تک نظام شمسی میں صرف ایک جسم کی باقاعدہ ٹیگنگ اور ٹریکنگ کی گئی ہے اور وہ جسم ہمارا اپنا چاند ہے۔چاند کی سطح پر تین ریفلیکٹر نصب کئے گئے تھے اور یہ اپالو مشن کے خلانووردوں نے نصب کئے تھے۔ماہرین چاند اور زمین کے درمیانی فاصلے کی درست ترین پیمائش کے لیے لیزر ٹیکنالوجی سے بھی مدد لے رہے ہیں جس سے پتا چلا ہے کہ چاند تین سینٹی میٹر سالانہ کے حساب سے زمین سے دور ہورہا ہے۔

            زمین کی طرف آتے ہوئے کسی بھی شہابیےکی کیمیائی ساخت کا مطالعہ بھی ماہرین کے پیش نظر ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہم زمین کی طرف آتے ہوئے کسی بھی شہابیےکو تباہ کرنا چاہیں اور وہ شہابیہ لاکھوں کروڑوں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر کو زمین پر آرہے  اورزیادہ تباہی کا باعث بن جائے۔

            اس مقصد کے لیے ایک پروجیکٹائل مشن بھی زیر غور ہے جو ہر وقت خلا میں موجود رہے اور اچانک نمودار ہونے والے کسی خطرناک جسم کے راستے کو تبدیل کر سکے۔یہ پروجیکٹائل محض دھکا دینے کا کام بھی کر سکے گا اور بوقت ضرورت میزائل کی طرح ٹکرا کر اس جسم کو تباہ بھی کر سکے گا ۔ زمین اور انسانوں کی بقاء کے اس منصوبے کو بھی خاطر خواہ رقم درکار ہے اوراس پر پوری دنیا کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ا س مسئلے سے نمٹنا ہمارا امتحان بھی ہے۔ہم ڈائنوسارز کی طرح یکلخت ختم نہیں ہونا چاہتے بلکہ اپنے انقلابی ارتقاء کو جاری رکھنا چاہتے ہیں

متعلقہ عنوانات