نہیں، روس یوکرائن پر قبضہ نہیں کرے گا!
روس نے پچھلے پورے سال سے یوکرائن کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک بڑی فوج کھڑی کر رکھی ہے۔ اب بڑھتے ہوئے خطرات ہیں کہ روس یوکرائن پر قبضہ کر لے گا۔ بہت سے مغربی رہنماؤں نے اس اقدام سے روس کو سے بار بار خبردار کیا ہےاور ماسکو بار بار انکار کر رہا ہے جبکہ اس نے اب تک سرحد سے اپنی فوج نہیں ہٹائی ہے۔ کچھ مبصرین روس کے ان بیانات کو جھوٹ سے تعبیر کر رہے ہیں ،یہاں تک کہ روسی قیادت پر خفیہ اوپریشن کی تیاری کا الزام لگا رہے ہیں۔
لیکن روس کا پچھلی دو دہائیوں کا عالمی سیاست میں رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ روسی عہدیدار شاید (یوکرائن کے مسئلےپر) عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ یوکرائن میں بڑے پیمانے پر جنگ روس کے عالمی سیاست کے کھیل میں سخت طاقت استعمال کرنے کے انداز سے مطابقت نہیں کھاتی۔ جارجیا، شام، لبیا اور بڑی حد تک یوکرائن کی مثالیں اس بات کی غماز ہیں کہ روس ہمیشہ وہ پالیسی اپناتا ہے جو کم خرچ ہو۔ ہر موقعے پر روسی حکومت کو زمینی خطرات کا پوری طرح ادراک ہوتا ہے۔ اس نے ہمیشہ خاصی احتیاط کے ساتھ مالی منافعے کا تجزیہ کیا ہے اور ہمیشہ سخت طاقت کے استعمال کے اہداف محدود اور واضح رکھے ہیں۔ کم خرچ پالیسی اس کا ہمیشہ شعوری انتخاب ہوتا ہے۔ کیونکہ روسی فیصلہ ساز اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر جنگ کو برقرار رکھنے کے وسائل ان کے پاس نہیں ہیں۔
جب اس نے 2008 میں جورجیا کی جنگ میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے مداخلت کی تھی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس نے پوری طرح اس جنگ کی قیمت کا تخمینہ لگا رکھا تھا۔ اس وقت روس کو ناکو چنے چبوانے والے دشمن کا سامنا نہیں ہوا تھا اور اس نے جارجین افواج کو آرام سے جنوبی ایشیا میں شکست دے لی تھی۔ روسی فوجی اس وقت باقاعدہ طور پر جورجیا میں داخل ہوئے تھے، انہوں نے ایک شہر کو تاراج کیا تھا اور رک گئے تھے۔ جب انہوں نے جنوبی ایشیا اور ابخازیہ سےجارجین افواج کو نکال باہر کرنے کا محدود ہدف حاصل کر لیا تو وہ یورپی ثالثی کے لیے مان گیا۔ روسی فوجی جارجیا کو دو حصوں میں کاٹ سکتے تھے، وہ آذربائیجان سے ترکی جاتی قیمتی گیس پائپ لائن پر قبضہ کر سکتے تھےاور سیاسی و معاشی نظام کو مفلوج کر سکتے تھے۔ یہ تمام کھیل اس کے لیے اہم بارگیننگ چپس ثابت ہو سکتا تھا، کہ وہ جارجین حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ علیحدگی کے حامی علاقوں کی آزادی کو مانے۔ لیکن ان اقدامات کی علاقائی و عالمی قیمت بہت زیادہ تھی اس لیے وہ محدود فوجی آپریشن کے بعد رک گیا۔
روس نے 2015 میں بشار الاسد کی حکومت کو کھڑا رکھنے کے لیے شام میں مداخلت سے پہلے بھی اسی قسم کی قیمت کا تخمینہ لگایا تھا۔ ماسکو نے ایک بڑی زمینی فوج تعینات نہیں کی تھی جیسا کہ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں کی تھی۔ اس نے اپنی سخت قوت کو جنگی جہازوں ، خصوصی افواج، مرسنریز ، عسکری مشیروں اور بحری جہازوں تک ہی رکھا تھا۔ خطرے کو مزید کم کرنے کے لیے روسی سفارتکاروں نے جنگ کے مختلف مرحلوں پر مختلف سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کی تھیں، جیسا کہ ترکی، امریکہ اور اسرائیل وغیرہ۔ ان ملاقاتوں کا مقصد اس بات کی یقین دہانی کروانا تھا کہ باغیوں کو اینٹی ائیر کرافٹ ہتھیار فراہم نہیں کیے جائیں گے تاکہ روسی و شامی افواج کی فضائی برتری برقرار رہے۔ باغیوں کے علاقوں پر شدید روسی بمباری شام کی حکومتی افواج کو ائیر کوور فراہم کرتی تھی اور ان کے لیے دفاعی پوزیشنز سے جارحانہ پوزیشنز لینے میں مددگار ثابت ہوتی تھیں۔ ان کی وجہ سے ہی اگلے چند ماہ میں شامی افواج جن کی پشت پناہی ایران سے بھی کی جارہی تھی ایک بڑے علاقے کو واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ اگلے تین سال کے عرصے میں انہوں نے باغیوں کو ان کے کئی مضبوط علاقوں سے نکال باہر کیا تھا اور ان کی موجودگی کو شمال مغرب تک خاصا محدود کر دیا تھا۔ روسیوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا جو کہ اسد کی حکومت کو بچانا تھا اور وہ بھی خاصی کم قیمت کے ساتھ۔ ان کی یہ کم قیمت اموات اور فنڈنگ دونوں حوالوں سے کم رہی تھی اور اوپر سے انہوں نے عالمی منظر نامے پر مغربی طاقتوں کے خلاف سفارتی محاذ پر بہت کچھ حاصل بھی کر لیا تھا۔
اسی طرح جب اسے لبیا کے تنازعے میں مداخلت کو کہا گیا تو اس نےبہت تھوڑی کمٹمنٹ کی اور بہت کچھ حاصل کر لیا۔ روس کی مداخلت صرف روسی مرسنری کو تعایناتکرنے اور خلیفہ حفتر کو مضبوط کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے تک محدود تھی جو لبیا کے مشرقی حصوں کو کنٹرول کرتا تھا۔ گو کہ حفتر دارالحکومت طرابلس پر حملے میں ناکام رہا لیکن روس اس صورتحال میں بھی خسارے میں نہیں رہا۔ حتیٰ کہ وہ تو لبین حکومت اور خلیفہ کے مابین ثالث بننے میں کامیاب رہا اور مزاکرات کی میز پر دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اہم جگہ حاصل کر گیا۔
جب 2014میں روس نے یوکرائن میں جمہوریت کی حمایت میں صدر وکٹر یان نیکوچ کے خلاف انقلاب کے بعد مداخلت کی تو اس نے وہی کم خرچ پالیسی اختیار کی۔ اس نے اپنے سے خاصے کمزور ہمسائے پر قبضے کا فیصلہ نہ کیا۔ یوکرائن میں اس نے اپنے باقاعدہ فوجی داخل نہ کیے لیکن اس کے برعکس کرائمیا میں کر دیے جہاں اسے اپنے سٹیٹجک عسکری ایسٹ قائم کرنا تھے۔ یہ ایسٹ بلیک سی میں اپنے بحری بیڑے کے ہیڈ کواٹرز تھے۔ اس نے کرائیمیا پر قبضہ نسبتاً کم خون بہا کر کیا۔ اس نے کرائمیا میں استصواب رائے کروایا اور کرائمیا پر قبضے کو لوگوں کی رائے بنا کر پیش کیا۔ روس نے اس سے بڑھ کر یوکرائن کی زمین ہتھیانے کی کوشش نہ کی۔ بڑے پیمانے پر جنگ نہ ہی روس کا طریقہ کار تھا اور نہ ہی کیو( جو کہ یوکرائن کا داراحکومت ہے)پر قبضہ اس کا مقصد۔ قبضے کی بجائے روس نے نئی حکومت کو سزا دینے اور اسے اپنے زیر اثر لانے کے لیے یوکرائن کے مشرق میں علیحدگی پسند کھڑے کر دیے، انہیں فنڈ کیا اور ان کی امداد کو کچھ فوجی بھی بھیج دیے۔ اس نے مداخلت کے لیے بڑی حد تک مرسنریز اور ایسے فوجیوں پر انحصار کیا جو روسی نشان پہنے ہوئے نہیں تھے، تاکہ وہ یوکرائن میں روسی مداخلت سے انکار کر سکے اور وہاں کی بغاوت کو مقامی قرار دے سکے۔ اس طرح روس نے یوکرائن پر برتری حاصل کی نہایت ہی قلیل قیمت پر۔
آج آٹھ برس بعد روس یوکرائن کی سرحد پر اپنی فوج لگا رہا ہے۔ کیا اس نے اب اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کر لی ہے۔ اس کے امکان بہت ہی کم ہیں۔ مغربی ممالک کی یوکرائن پر قبضے کی پیش گوئی کے باوجود یہ بات سوال طلب ہے کہ روس اپنی افواج کو کھڑا کر کے یوکرائن پر قبضہ چاہتا ہے۔ روس نے یوکرائن کے ڈومبز کے علاقے میں اب تک اپنی برتری نہیں کھوئی۔ کیونکہ یوکرائینی افواج کے لیے یہ نہ ممکن ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کو دبا سکیں جبکہ انہیں روس کی حمایت حاصل ہو۔ اگر روس یوکرائنی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے تو اسے مشرق میں صرف تنازعے کو ہوا دینی ہے، اور اس کے لیے بالکل بھی بڑے پیمانے پر روسی افواج کی تعیناتی درکار نہیں۔ سرحد کے گرد ایک بڑی فوج ہی یوکرائن کو خاصا نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے یوکرائن کی معیشت کو خاصا نقصان پہنچ رہا ہے۔ مزید یہ کہ روس کو جمہوریت حمایتی یوکرائن سے بھی خطرہ نظر نہیں آ رہا کیونکہ پہلے جس قوت نے جمہوریت کی حمایت میں بغاوت برپا کی تھی وہ جمہوری حلقوں میں ہی غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اس لیے یوکرائن پر بڑی فوج کھڑی کرنے کا ہدف یوکرائن میں بغاوت نہیں بلکہ مغرب ہے۔ روس مغربی ممالک کو سکیورٹی معاملات پر بات چیت کے لیے مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اوراس کی حکمت عملی کام کرتی نظر آ رہی ہے۔ 1991 کے بعد مغربی ممالک اب روس سے یورپی سکیورٹی کے معاملات پر بات چیت کے لیے سنجیدگی سے بیٹھے ہیں۔ روسی حکام بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یوکرائن نیٹو میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عسکری تنظیم میں اس کو شامل کرنے کی کوئی خواہش نظر نہیں آتی۔ روس کو صرف یہ خدشہ ہے کہ کہیں امریکی یوکرائنی سر زمین پر میزائل یا میزائل سے دفاع کا نظام نافذ نہ کر دیں۔ روس کئی معاملات پر انتظامات چاہتا ہے۔ جس میں یورپ میں درمیانی رینج کے میزائلز کا تنصیب اور اس کے نزدیک فوجی مشقوں کی روک تھام شامل ہے۔ دسمبر سترہ کو اس نے نیٹو اور امریکہ کے سامنے اپنے مطالبات کا ایک پرپوزل رکھا تھا۔
اب کیا ہوگا؟ جب تک روس وہ سکیورٹی گارنٹیاں حاصل نہیں کر لیتا جو کہ اسے درکار ہیں وہ یوں ہی یوکرائن کے گرد افواج تعینات کر کے مغربی ممالک پر دباؤ رکھے گا۔ وہ بیلاروس میں درمیانی رینج کے بلسٹک میزائل بھی نصب کرے گا اور ان کو مزید اپنے ہمسائیوں میں بڑھائے گا، جیسا کہ جارجیا وغیرہ۔ وہ یورپ کے قریب جنگی کھیل ترتیب دے گا جیسا کہ فوجی مشقیں وغیرہ۔ اس نے ایسا کیا بھی ہے کہ آئرلینڈ کے نزدیک بحری مشقیں کر کے۔ وہ ایسا امریکی سرزمین کے نزدیک بھی کرے گا جیسا کہ اپنی آب دوزوں پر ہائپرسونک میزائلز اور وینزویلا میں لانگ رینج کے مزائل نصب کر کے۔ یہ تمام اقدامات روسی کم خرچ پالیسی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرائن پر مکمل قبضے اور بڑے پیمانے پر جنگ کے امکان بہت ہی کم ہیں۔