پے پال کے پاکستان نہ آنے کی اصل وجہ کیا ہے؟
لاہور کے پوش علاقہ گل برگ کی مشہور شاہراہ کے کنارے وائٹ ہاؤس نما پلازے میں ایک صاحب لیپ ٹاپ چلائے بیٹھے ہیں۔ ان کے دائیں ہاتھ کی دیوار جدید تقاضوں کی عکاس ہے جبکہ بائیں دیوار سے 1970 کے کچے مکان کی جھلک آتی ہے۔ دائیں بائیں کے متضاد ماحول میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا لیتے صاحب لیپ ٹاپ پر فری لانسنگ کی ویب سائٹ کھولے بیٹھے ہیں۔ ویب سائٹ پر انہوں نے اکاؤنٹ بنانے کی کوشش کی تو پیغام ابھرا۔
"ویب سائٹ پر صرف پے پال کے ذریعے پیسوں کی ترسیل ممکن ہے۔ آپ اپنے پے پال اکاؤنٹ کی تفصیلات درج کریں۔
پیغام دیکھ کر فری لانسر صاحب کا منہ سرخ ہو گیا۔ کیونکہ پے پال پاکستان میں………
پے پال کیا ہے؟
پے پال آن لائن پیسے ترسیل کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے جو اس وقت 2022 میں دو سو سے زائد ممالک اور پچیس کرنسیوں میں اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔یہ صارف کے پے پال اکاؤنٹ کو اس کے بینک اکاؤنٹ، ویزا کارڈ، ماسٹر کارڈ سے منسلک کرتا ہے جس کے بعد صارف دنیا بھر میں پیسے معمولی فیس کے عوض بھجوا اور منگوا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ اس کی کم فیس، معتبر خدمات اور دیگر سہولیات کی وجہ سے اسے پسند کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے فری لانسر اور ای کامرس کے لوگ اسی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ کیونکہ پے پال اپنی خدمات پاکستان میں نہیں دے رہا۔ اور بمطابق وزارت انفارمیشن اور ٹیکنالوجی نہ اس کا اگلے دو سال تک کا ارادہ ہے۔ جب پاکستانی لوگ باہر دنیا کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ طے کرنے لگتے ہیں تو اس کی عدم موجودگی مسئلہ بن جاتی ہے۔ اسی لیے فری لانسر صاحب کا منہ سرخ ہوا تھا۔
اب بھلا میاں پے پال کو پاکستان کا رخ کرتے وقت کیوں جوتا نہیں ملتا، اس کی وجوہات دیکھ لیتے ہیں۔ ساتھ رہیے گا۔
پاکستان میں پے پال کیوں نہیں آتا؟
بمطابق نیوز انٹرنیشنل پاکستان 2015 اور 2019 میں حکومتی سطح پر پے پال کو دو بار کہہ چکا ہے کہ:
"بھائی جان کدی ساڈے غریب خانے تے چکر تے لاؤ۔ بچے بڑا یاد کردے نیں۔"
دونوں بار پے پال نے صاف انکار کر دیا۔ بے مروتی کی حد ہوتی ہے یار۔
2018 میں اسد عمر صاحب نے اتھارٹیز کو چار ماہ کی ڈیڈ لائن بھی دی تھی کہ وہ پے پال کو منا کر پاکستان لائیں۔ لیکن بے سود۔
2021 میں ایک شہری بلال مختار نے پارلیمانی سیکریٹریٹ میں ایک درخواست ڈالی کہ پتا چلایا جائے کہ کیوں پے پال پاکستان نہیں آ رہا؟ بلال کی درخواست کو سینٹ کی ایک سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا جس کے سربراہ سینٹر طلحہ محمود تھے۔ جولائی میں اس پر سماعت کے دوران پہلے تو اسٹیٹ بینک سے پوچھا گیا۔ بتاؤ بھئی مسئلہ کیا ہے؟
اسٹیٹ بینک کے نمائندہ بولے: " صاحب اسٹیٹ بینک کو تو پے پال سے کوئی مسئلہ نہیں۔ پے پال نے تو کبھی کہا ہی نہیں کہ وہ پاکستان میں کاروبار کرنا چاہتا ہے۔"
پھر کمیٹی نے فائنانس سیکرٹری یوسف خان صاحب کو تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر کے پتہ چلانے کی ہدایت کی کہ آخر پے پال کیوں پاکستان آنے سے گھبرا رہا ہے؟
فروری 2022 میں اس حوالے سے بزنس ریکارڈر میں خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق وزارت انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے اہم عہدے داران نے بتایا کہ پے پال ایف اے ٹی ایف FATF کے اعتراضات کی وجہ سے پاکستان نہیں آ رہا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ یہاں اس کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی فنڈنگ ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے پاکستانیوں نے ، جو پے پال کے لیے اہم گاہک ثابت ہو سکتے ہیں، پے پال استعمال کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات کے ذریعے یا کسی دوسرے طریقہ کار سے راستہ کھول رکھا ہے۔ باقی ماندہ جو پاکستانی ہیں، پے پال کا خیال ہے کہ وہ ان کے لیے کوئی اہم گاہک نہیں ۔ ان وجوہات کی بنا پر پے پال اگلے دو سالوں تک پاکستان میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
یہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہدیداران کا موقف ہے۔ لیکن ماہرین اس ضمن اور سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ دی نیوز انٹیرنیشنل کے مضمون میں مشہور اے کامرس کی دنیا کے ماہر سنی علی کے حوالے سے درج ہوا کہ پے پال پاکستان کے بینکوں میں اوور ڈرافٹنگ جیسی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نہ آنے پر مصر ہے۔ اسی طرح پاکستان انسیٹیوٹ آف ڈویلمپنٹل اکنامکس نے اپنی ایک رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کے الیکٹرونک منی انسیٹیوٹ کے ریگولیشن کے قواعد و ضوابط کو پے پال کی بے رخی کی اہم وجہ قرار دیا۔ ان قواعد و ضوابط کے مطابق اگر پے پال جیسی کوئی بھی کمپنی پاکستان میں کاروبار کرنا چاہتی ہے تو اسے لائسنس کے لیے بیس ملین ڈالر کی فیس جمع کروانا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے انہی ریگولیشن قواعد و ضوابط کے مطابق پے پال جیسی کسی بھی کمپنی کو منظوری کے تین درجوں سے بھی گزرنا ہے۔
پہلے درجے میں کمپنی کو بنیادی منظوری ملتی ہے، جس کے بعد اسے پائلٹ ٹسٹنگ کی منظوری لینا ہوتی ہے۔ جب اسے پائلٹ ٹیسٹنگ کی اجازت مل جائے تو اسے آخری مکمل کاروبار کی اجازت کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ ظاہر ہے ان تینوں مرحلوں کو عبور کرنے کے لیے پیسہ اور وقت دونوں چاہییں۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط دیکھ کر ویسے احمد فراز کا شعر یاد آتا ہے۔
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پر تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
حاصل کلام:
پے پال ایک کاروباری کمپنی ہے۔ دنیا کے ممالک جنہوں نے اپنے ہاں کاروباری سرگرمیوں کو پروان چڑھانا ہو، وہ پے پال جیسی کمپنیوں کو سہولیات دے کر مائل کرتی ہیں، نا کہ سخت قواعد و ضوابط دکھا کر بھگاتی ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک طرف FATF کی گرے لسٹ اور عوام کے پے پال استعمال کرنے کے الٹے سیدھے راستوں نے جہاں پے پال کو بددل کر رکھا ہے۔ وہیں اسٹیٹ بینک کے کڑے قواعد و ضوابط ہوں گے تو کیسے ممکن ہے کہ پے پال پاکستان آنے میں دلچسپی دکھائے ۔
اس وقت اس سے کہیں زیادہ کہ پے پال کو ہماری ضرورت ہو، ہمیں پے پال جیسے اداروں کی ضرورت ہے۔ پے پال تو دو سو سے زائد ممالک میں اپنا کاروبار چلا رہا ہے اور اوپر سے جو اہم فری لانسر یا ای کامرس کی دنیا کے لوگ ہیں وہ بھی پے پال کی خدمات جیسے تیسے استعمال کر رہے ہیں۔ بچتے ہیں پیچھے مجھ جیسے کچے پکے لوگ۔ تو ان کے لیے کیوں پے پال اوکھلی میں سر دے۔ سترہ مئی 2022 کو نئے وزیر اعظم شہباز شریف کے حوالے سے خبر ملی تھی کہ وہ آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں پے پال کے مالکان سے مل کر انہیں پاکستان آنے کی دعوت دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ پے پال کو حکومت پاکستان کی جانب سے تیسری دعوت دیں، ضروری یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط کو پہلے نرم کروائیں۔ موجودہ اسٹیٹ بینک کی قیادت کے ہوتے ہوئے اور غیر مستحکم حکومت کے ہوتے ہوئے وہ اسٹیٹ بینک سے ایسا کچھ کروا پائیں گے، اس کے امکانات کم ہیں۔
تمام ماہرین کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں وائٹ ہاؤس نما پلازے میں ٹھنڈی ہوائیں لیتے فری لانسر صاحب اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ 2022 میں پے پال پاکستان نہیں آ رہا۔ لہٰذا تمام فری لانسر یہ سوچ کر خود کو تسلی دیں کہ یہ دنیا فانی ہے۔ یہاں کمایا ہوا مال یہیں رہ جانا ہے۔ وہ جو پے پال سے کما رہے ہیں انہوں نے کونسا کچھ قبر میں لے جانا ہے۔ اللہ ہم سب کو اچھے اعمال کی توفیق دے۔آمین!