پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
وہ عمومی مقاصد جو دوسری ریاستوں کے ایک ریاست کےساتھ مذاکرات ، سرگرمیوں اور تعلقات کی رہنمائی کرتے ہیں خارجہ پالیسی کہلاتے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر بین الاقوامی تعاون کے ذریعے امن و استحکام کے حصول کے مقاصد رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں گلوبلائزشین کے فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے اقتصادی سفارت کاری پر خصوصی زور دیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 1948 میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ابتدائی خاکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایاتھا۔ اس وقت کے جو حالات تھے ، ان کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب کہی جاسکتی تھی، لیکن دوسری طرف کئی ماہرین کا خیال ہے کہ خطے کے قریب ترین ممالک کی بجائے امریکہ کی طرف جھکاؤ اور انحصار نے پاکستان کے بھارت اوراپنے قریبی ہمسایوں سے تعلقات کو بہتر نہ ہونے دیا۔ پاکستان اسی وقت امریکی یا روسی بلاک کی بجائے ایک نسبتاً غیر جانب دار خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت تھی۔ سیٹو اور سنٹو جیسے معاہدوں نے بھارت، افغانستان، روس اور ایران سے ہمیں دور کرکے خطے میں ہمارے لیے اجنبیت پیدا کردی تھی۔
بہرحال اب خارجہ پالیسی کےجس اہم حصےجن کو پاکستان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہ امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات ہیں، خاص طور پر یوکرائن اور روس کی جنگ کے بعد روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا، کابل کے زوال کے بعد افغان صورتحال سے نمٹنا، سعودی عرب اور ایران کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنا اور آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئے حالات میں دیکھنا ہے۔
جب امریکہ کی بات آتی ہے تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان شروع سے ہی امریکہ کا اسٹریٹجک (Strategic)اتحادی ہے، ہم نے کئی دور دیکھے ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی، افغان حملےاور NATOسپلائی جیسے معاملات نے دونوں فریقوں کے درمیان شدید عدم اعتماد پیدا کیا ۔ FATF کے معاملے میں بھی امریکہ نے پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر آنے میں مدد نہیں کی۔ ان مسائل کی وجہ سے پاکستان نے امریکہ پر انحصارکرنا چھوڑدیا اور امریکہ سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی۔ جب روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی بات کی جاتی ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں ممالک کے ماضی میں کئی وجوہات کی بنا پر اچھے سفارتی تعلقات نہیں رہےلیکن اس وقت پاکستان روس کی طرف بھی ہاتھ بڑھا رہا ہے تاکہ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اپنی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
امریکہ کا افغانستان سے نکلنا بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر دوبارہ غور کرنے کا سبب بنتا ہے کیونکہ امریکی فوجیوں نے جس طرح افغانستان چھوڑا اس کی توقع نہیں گئی تھی۔ اس کی وجہ سے خطے کی سلامتی کو خطرات ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اب صرف اپنے طور پر افغانی مہاجرین کومسائل پر قابو پانے میں مدد دینے کی کوششں کر رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور پاکستان کا کردار بہت اہم ہے خاص طور پر جب سعودی -ایران کشیدگی کی بات آتی ہے تو پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایران سے زیادہ سعودی عرب کی طرف مائل ہے۔پاکستان نے ایک بار پھر سفارتی طور پر دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھانے کی کوشش کی اور کچھ حد تک کامیاب رہا۔
آخری مسئلہ جس پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توجہ دی جا سکتی ہے وہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے تلخ تعلقات نے دونوں ممالک کو متاثر کیا ہے، پاکستان بھارت پرمسلسل زور دیتا رہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرے تاکہ ہمارا خطہ ترقی کر سکے۔ اگر دونوں ممالک تجارت شروع کرتے ہیں اس سے خطے میں خوش حالی آسکتی ہے۔ لیکن جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، تجارت ممکن نہیں، پاکستان کو چاہیے کہ عالمی طاقتوں کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ بھارت کو اپنی ہٖٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ کرسکیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں اپنے پڑوس ملک چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں اور اب تعلق سے بڑھ کر دوستی کی راہ پر گامزن ہیں۔ البتہ امریکہ اور چین سے تعلقات کے مابین ایک توازن برقرار رکھنا بھی پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں ہونے والی حکومتی تبدیلی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بار پھر امریکہ کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا ہے جس پر کئی ماہرین حیران و پریشان بھی ہیں۔
بہرحال پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک تبدیلی آئی ہے جس میں واضح طور پر صرف مغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے مشرق میں بھی اتحادیوں کی طرف رجحان بڑھا ہے۔اگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترتیب دینا چاہتا ہے تو پہلے تو اسے معیشت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جدید دور میں مضبوط معیشت کے ذریعےہی دنیا کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی multipolarدنیا میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کے ہدف کو محفوظ بنانے کے لئے دیگر اہم ممالک تک بھرپور رسائی کے ذریعے اپنا سفارتی اثر و رسوخ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔