کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟


تنقید کیا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید بہت تشفی بخش نہ ہو، لیکن تنقید کیا نہیں ہے؟ کا جواب یقینا تشفی بخش اور بڑی حد تک قطعی ہوسکتاہے۔ تنقید عمومی اور سرسری اظہار رائے نہیں ہے۔ غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔ تنقید کا مقصد معلومات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔  یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ علم سے کیا مراد ہے؟ اگر علم سے مراد وہ فلسفیانہ اصطلاح ہے جس کی رو سے علم وہی ہے جسے کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جا سکتا ہو، تو تنقید اس قسم کا علم عطا نہیں کرتی۔ وہ علم بھی جسے فلسفے میں علم اولین (A Priori Knowledge) کہا جاتا ہے، تجزیاتی فلسفے کے نزدیک مشکوک ہے، اسے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے ریاضیاتی حقائق جو مفروضہ ہیں، یعنی جنہیں Axiom یعنی علم متعارفہ کہا جاتا ہے، اسی قسم کا علم ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔ لیکن علم سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی شے کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔ آگاہی حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس چیز کو بیان کرنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کا صحیح بیان اس کی صحیح آگاہی فراہم کرتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ کیا کوئی بیان ایسا بھی ممکن ہے جس میں تعیین قدر یعنی موضوعی معیار کا کوئی شائبہ نہ ہو؟ ظاہر ہے کہ خالص بیانیہ بیان ممکن نہیں ہے اور ہر بیان میں تھوڑی بہت تعیین قدر شامل ہوتی ہے لیکن تنقیدی بیان کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں تعیین قدر موضوعی نہیں ہوتی بلکہ حتی الامکان معروضی ہوتی ہے۔ ادبی تنقید خارجی دنیا کے بارے میں خالص علم نہیں عطا کرتی (کیونکہ یہ شاید کسی بھی علم یا فن کے لیے ممکن نہیں ہے) لیکن یہ دو کام کرتی ہے۔ اول تو یہ خارجی دنیا کے اہم ترین مظہر یعنی ادب کو بیان کرنے کے لیے ایسے الفاظ تلاش کرتی ہے جن کا استعمال درستی اور صحت بیان کے لیے ناگزیر ہو۔ یہ اس لیے کہ جو الفاظ ناگزیر ہوں گے ان میں حقیقت کا شائبہ یقینا ہوگا، کیونکہ ہر وہ لفظ جسے نظرانداز کیا جا سکے یا جس کی ضرورت ایسی نہ ہو کہ اسے پس پشت ڈالنا ممکن ہو، یقینا اس شے سے نزدیک ترین تعلق نہ رکھتا ہوگا جسے بیان کیا جا رہا ہے۔ تنقید دوسرا کام یہ کرتی ہے کہ صحیح ترین بیان کی تلاش کے ذریعے ایسے اصول دریافت یا مرتب کرتی ہے جس کی روشنی میں صحیح بیان تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ پہلا کام عملی تنقید اور دوسرا نظریاتی تنقید کے ذریعے انجام پاتا ہے لیکن اکثر یہ دونوں کام ساتھ ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ مندرجہ بالا خیالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہماری بیش تر ادبی تنقید افسوس ناک حد تک ژولیدہ فکری اور چھچھلے پن کا شکار نظر آتی ہے۔ وٹگنشٹائن (Wittgenstein) نے ایک بار برٹرنڈ رسل (Bertrand Russel) کے بارے میں کہا تھا کہ رسل نے فلسفہ اس لیے ترک کر دیا کہ اس کے پاس مسائل کا فقدان ہو گیا تھا۔ یہ اس نے اس معنی میں کہا کہ جتنے بھی مسائل خارجی دنیا کے علم کے بارے میں ممکن تھے، رسل نے ان سب کوجانچ پرکھ ڈالا تھا اور اب ایسے مسائل باقی ہی نہ تھے جن پر وہ اپنا زور صرف کرتا۔ آج کی اردو تنقید پر بھی یہ قول صادق آتا ہے لیکن الٹے معنوں میں۔ یعنی مسائل کا فقدان اس لیے نہیں ہے کہ سارے سوالات پر بحث ہو چکی، بلکہ اس لیے ہے کہ سوالات اٹھائے ہی نہیں گئے۔  گوپال متل صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اردو میں کوئی نقاد ہی نہیں ہے، عظیم نقاد کی بحث کیا معنی رکھتی ہے؟ اس پر ایک صاحب نے مجھے خط لکھ کر پوچھا کہ بطور نقاد میں نے اس فیصلے کا برا مانا کہ نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اردو میں نقاد یا تنقید ہے کہ نہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ رواروی میں کہی ہوئی ایک بات کو فوراً ذاتی رنگ میں رنگنے کی کوشش (اگرچہ خلوص نیت سے) کی گئی۔ سب سے پہلے تو ان مسائل کی فہرست بنائیے جن پر اظہار خیال تنقید کے لیے ضروری ہے، پھر سوچئے کہ ان مسائل پر کتنا اظہارخیال ہوا، تو معلوم ہوگا کہ ہمارے اکثر نقاد بنیادی باتوں پر گفتگو کرنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ اگر ترقی پسند نقاد ہے تو وہ گھوم پھر کر انسان کے چاند پر پہنچنے، سماجی اور معاشی ترقی، جدوجہد اور انقلاب کا تذکرہ کرےگا اور اگر ترقی پسند نقاد نہیں ہے تو صنعتی زندگی کی حشرسامانی، موت کا خوف، تنہائی وغیرہ اس کے ہر پیراگراف میں کسی نہ کسی بہانے سے جلوہ افروز ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان چیزوں سے نقاد کو سروکارنہ ہونا چاہیے، ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن اول تو یہ تمام باتیں پیش پا افتادہ ہیں۔ ان کی حیثیت معلومات کی ہے، علم کی نہیں۔ دوم یہ کہ ان باتوں سے جو نتیجہ نکالا جائے اگر وہ ادبی ہو تو ہم یہ سب اخباری حالات برداشت بھی کر لیں، لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ نتیجہ برآمدہی نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا بھی ہے تو اتنا لجلجا اور غیرضروری کہ اس سے ادبی تنقید میں کوئی مدد نہیں ملتی، مثلاً انقلاب کی دھمک نیاز حیدر میں بھی ہے اور سردار جعفری میں بھی۔ فرد کی تنہائی کا احساس اختر بستوی میں بھی ہے اور بلراج کومل میں بھی۔ تو کیا یہ چاروں ایک ہی درجے کے شاعر ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ سماجی اور سیاسی حالات کا تذکرہ ہمارے نقادوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ ذکر میر کا ہو یا نظیر کا یا سودا کا، بار بار وہی سماجی اور سیاسی حالات زکام کے نسخے کی طرح لکھے ملیں گے، لیکن اس سوال کو حل کرنے کی کسی میں تاب نہیں کہ اگر ایک ہی زمانے اور ایک ہی سماجی پس منظر نے میر، نظیر اور سودا تینوں کو جنم دیا تو یا تو وہ حالات غلط ہیں یا یہ تینوں شاعر ایک ہی طرح کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ تو پھر سماجی حالات کی اہمیت یا معنویت کیا رہ گئی؟ یا تو ہمارے نقاد اپنے روایتی غبی پن کو ترک کرکے یہ ثابت کریں کہ سماجی حالات میر اور نظیر دونوں کے لیے مشترک نہیں تھے یا اگر تھے تو ان کی انفرادیتیں سماجی اور سیاسی پس منظر کے ماورا تھیں۔ پہلا نظریہ تاریخی اعتبار سے غلط ٹھہرےگا اور دوسرا نظریہ ہمارے پروفیسر نقادوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوگا کیونکہ وہ انفرادیتوں کے قائل ہی نہیں ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ انفرادیت کے معنی ہیں عدم تقلید۔ اور عدم تقلید انتشار کو راہ دیتی ہے۔ اس لیے تقلید کی ڈھابلی ہی میں بند ہوکر انفرادی بانگ دی جا سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جدید روسی شاعرانہ منظر ایسے شاعروں سے بھرا ہوا ہے جو اپنی انفرادیت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ’’پچاس سوویت شاعر‘‘ کے عنوان سے جو مجموعہ ابھی روس سے شائع ہوا ہے، اس کے دیباچے میں بھی اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ ان شعرا میں پیچیدگی، تہہ داری اور تنوع کی جو کیفیت ہے وہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کا قاری اب پہلے سے زیادہ سمجھ دار، باذوق اور بلند معیار ہو گیا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ یہ شاعر انسانی تجربات کی مختلف جہتوں کے بے دریغ اظہار کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مجموعے میں ایک نوجوان شاعر ایوگنی ونوکوروف (Evgeny Vinokurov) کی ایک دلچسپ نظم ہے کہ لوگ مجھے طرح طرح کے مفت مشورے دے دیا کرتے ہیں، میں ان کی باتیں مسکراکر سنتا ہوں لیکن کرتا اپنی سی ہوں۔ آزادیٔ فکر کا یہ تصور شاعر اور تنقید دونوں کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ نقاد کو جہاں یہ آزادی ہے کہ وہ کسی مخصوص نقطۂ نظر کی روشنی میں فن پارے کو پرکھے، وہاں اس سے ہمارا یہ مطالبہ بھی ہے کہ اس کا نقطۂ نظر کسی ادبی معیار کے زیر اثر تعمیر کیا گیا ہو اور اس میں کوئی ایسے منطقی تضادات نہ ہوں جو ان معیاروں یا اس نقطۂ نظر کی وقعت کو مجروح کریں جس کی رو سے نقاد اپنے فیصلے کر رہا ہے۔ یہ نکتہ قابل لحاظ ہے کہ کوئی بھی تنقیدی نقطۂ نظر سوفیصدی صحیح نہیں ہو سکتا۔ جس طرح کوئی بھی سائنسی یا فلسفیانہ نظریہ سو فیصدی صحیح نہیں ہو سکتا۔  سائنسی علم کے بارے میں تو پھر بھی اتنا کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حقائق وشہادت کی روشنی میں یہی نظریہ درست ہے، لیکن ادبی نطقۂ نظر کے بارے میں اتنا بھی کہنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ ادب بہ ذات خود اس قدر داخلی اور انسان کے ناقابل تجزیہ تصورات سے اس قدر پیوست ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی، لہٰذا وہ نقاد جو اپنے نظریے کے علاوہ تمام نظریات کو رد کرتے ہیں، صرف اسی حدتک قابل اعتبار واعتنا ہیں جس حد تک ان کے تردیدی خیالات منطقی اور عقلی ثبوت کے پابند ہیں۔ منطقی اور عقلی ثبوت سے ماورا نظریات بھی درست ہو سکتے ہیں لیکن نقاد ان کی صحت پر اصرار نہیں کر سکتا۔ جدید تنقید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے پچھلی تنقید کی مزعوماتی اور ادعائی فضا کی جگہ آزاد خیالی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی کمزوری یہ ہے کہ اس نے اکثر صحیح ترین بیان کو تلاش کرنے کے بجائے کام چلاؤ بیان پر اکتفا کیا ہے یعنی فن پارے کو بیان کرنے کے لیے بہترین طریقہ نہیں اختیار کیا ہے لیکن پھر بھی نئے نقادوں کی کوششیں بہتر ہیں جو یا تو فراق صاحب کی طرح انشائیہ لکھنا پسند کرتے تھے یا ممتاز حسین کی طرح غیرتجزیاتی بیانات سے کام لیتے تھے۔ دراصل نئی اور پرانی تنقید کا اختلاف دو مختلف نظریات کا اختلاف ہے اور یہ نظریات محض سیاسی یا ادبی نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق فلسفۂ علم سے ہے۔  وہ فلسفی جنھیں حقیقت پسند (Realist) کہا جاتا ہے، اس با ت میں یقین رکھتے ہیں کہ اشیا کسی نہ کسی مفہوم میں موجود ہیں اور ان کا مطالعہ اشیاکی حیثیت سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف عینیت پرست فلسفی جو ہیگل (Hegel) اور کانٹ (Kant) کے پیرو ہیں، اشیا کا صرف عینی وجود مانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ کسی شے کا مطالعہ صرف اسی طرح ممکن ہے کہ عینی حقیقت کا مطالعہ کیا جائے۔ مارکسی یا روایتی تنقید دراصل اسی عینیت پرست فلسفے کی پیداوار ہے جو تجزیے کے بجائے عمومی اور غیر تحلیلی بیان (Synthesis) پر اصرار کرتا ہے اور جدید تنقید حقیقت پرست ہے جو فن پاروں کو بقیہ چیزوں سے الگ کرکے اس کا تنہا تجزیہ و مطالعہ کرنا پسند کرتی ہے۔ تجزیاتی فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ فن پارے کے بارے میں موضوعی اور موضوعاتی دونوں طرح کی باتیں خارج از بحث کردی گئیں۔ موضوعی باتوں سے میری مراد وہ باتیں ہیں جو مجھے ذاتی یا جذباتی طور پر پسند آتی ہیں چاہے منطق یا استدلال ان کے وجود سے انکار کرے، مثلاً میں نے یہ فرض کر لیا کہ ادیب کی سماجی ذمہ داری ہے، لہٰذا میں ادب میں اس سماجی ذمہ داری کا انعکاس تلاش کروں گا۔ اگر وہ نہیں ملتا تو میں اس ادب کو لاطائل قرار دوں گا۔ چاہے اس ادب میں ادبی حسن ہو یا نہ ہو، میں یہ کہہ دوں گا کہ سماجی ذمہ داری کا انعکاس نہیں ہے تو ادبی حسن بھی نہیں ہے۔ خیر یہاں تک غنیمت تھا لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر فن پارے میں سماجی ذمہ داری کا اثر ملتا ہے تو میں اسے اچھا ادب کہوں گا، اس میں کسی اور طرح کاحسن ہو یا نہ ہو، میں تمام ادب کی تنقید کرتے وقت پہلو بچاتا رہوں گا کہ کہیں یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سماجی ذمہ داری کا ثبوت نہ ہونے کے باوجود فلاں ادب اچھا ہے۔  چنانچہ سردار جعفری اور دوسرے ترقی پسند نقاد ایک عرصے تک اس گتھی کو حل کرنے میں سرگرداں رہے کہ بودلیئر یا غالب یا رومی کی معنویت ان کے لیے کیا اور کیوں ہے؟ غالب، میر اور کبیر کی حدتک تو وہ کھینچ کھانچ کر کچھ نہ کچھ سماجی فلسفہ برآمد کر لائے لیکن بودلیئر یا کافکا وغیرہ کے لیے ان لوگوں نے مریضانہ، غیرصحت مندانہ، داخلیت پرست وغیرہ اصطلاحیں تراش کر دل کو مطمئن کر لیا کہ اگر یہ لوگ مجھے اچھے بھی لگتے ہیں تو محض انسانی کمزوری ہے، ورنہ یہ سب مریض اور غیرصحت مند ہیں۔ سردار جعفری یا احتشام حسین یا سجاد ظہیر باعلم اور باذوق لوگ ہیں۔ اس لیے ان لوگوں نے ان مسائل کو حتی الامکان اس طرح برتاکہ خدا اور وصال صنم دونوں سے بہرہ مند ہوتے رہے لیکن غبی اور کم علم نقادوں کی وہ فوج جو ان کی کلمہ گو ہے، اس کے ہاتھ خط وخال کے علاوہ کچھ نہیں لگا۔ بہرحال بات ہو رہی تھی موضوعی نقطۂ نظر کی۔ ایمان دار دانشور کا پہلا امتحان وہاں ہوتا ہے جب وہ کسی ایسے نتیجے کو رد کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو منطقی طور پر غلط لیکن جذباتی طور پر اس کے لیے دل کش ہو۔ اگر میں نے جذباتی دل کشی رکھنے والے نتیجے کو منطق کے علی الرغم قبول کر لیا تو گویا وہیں خودکشی کر لی۔ جدید تنقید چونکہ موضوعی اور ذاتی طور پر دل کشی رکھنے والے نتائج سے سروکار نہیں رکھتی، بلکہ تجزیے کی روشنی میں فن پارے کو پرکھتی ہے، اس لیے اسے یہ مشکل درپیش ہی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر فیض کا مطالعہ کرنے والے جدید نقاد کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ ان کے سیاسی اعتقادات کو کس خانے میں رکھے۔ ممکن ہے موضوعی طور پر وہ ان اعتقادات سے متفق نہ ہو یا متفق ہو لیکن اس حدتک اور اس طرح نہ ہو جس طرح فیض صاحب چاہتے ہیں۔ لیکن تجزیاتی تنقید کا پیروکار ہونے کی وجہ سے اس کو اپنے ذاتی معتقدات اور فیض کے معتقدات میں کوئی کشاکش نہیں نظر آتی۔ فیض اپنے گھر خوش، ہم اپنے گھر خوش۔ ہمیں ان کا شعر اپنے فنی تجزیے کی روشنی میں اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ہم اس کی اچھائی اور اپنے دلائل کا بیان کر دیں گے اور باقی مسائل جو ذاتی نوعیت کے ہیں، ان کو اپنے تجزیے پر حتی الامکان اثرانداز نہ ہونے دیں گے۔ مجھے معلوم ہواہے کہ فیض صاحب نے اردو کے خلاف مورچہ سنبھالا ہے اور پنجابی زبان وادب کے حامی اس طرح بن گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ میں نے اردو میں شاعری کرکے زندگی ضائع کی۔ اس بات کے سبب میرے دل میں ان کے خلاف سخت غم وغصہ ہے لیکن اس کے باوجود ان کے جس شعر میں مجھے اچھائی نظر آتی ہے میں اس کو اب بھی اچھا کہتا اور لکھتا ہوں۔ اس نظریے کو محض لبرل کہہ کر پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا (حالانکہ لبرل ہونا بہت عمدہ چیز ہے) کیونکہ اس کا تعلق ایک پورے نظریۂ حیات وادب سے ہے۔ پچھلی نسل کے تمام نقاد بلکہ پچھلے تمام نقاد، جن میں حالی کا نام بھی شامل ہے، کسی نہ کسی حدتک موضوعی اور موضوعاتی دھوکے میں گرفتار تھے اور خوبصورت یا قابل قبول موضوع کو خوبصورت اور قابل قبول شعر وادب کی شرط ٹھہراتے تھے۔ اس دھوکے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اچھے اور برے ادب میں امتیاز کا معیار ادب کی اچھائی برائی نہیں بلکہ موضوع کی اچھائی برائی ہو گیا۔ یہ دھوکا اس شدت سے پھیلا کہ سمجھ دار لوگوں نے بھی اسے اپنی تنقید کی اساس بنا لیا۔ چنانچہ اسلوب احمد انصاری جیسے شخص نے لکھا کہ ان کے نزدیک اقبال کی عظمت کا تعین ان کے عشق رسول کو دھیا ن میں لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عقیل صاحب نے الیٹ کا ایک قول کہیں سے ڈھونڈکر بڑے فخر ومباہات سے پیش کیا کہ ممکن ہے ادب اور غیرادب میں فرق کرنے کے لیے ادبی معیاروں کا حوالہ دینا پڑے، لیکن کوئی ادب بڑا ہے کہ نہیں اس کا تعین غیرادبی معیاروں کے ہی ذریعے ہو سکتا ہے۔ ہمارے محترم یہ بات بھول گئے کہ اول تو یہ کیا ضرور ہے کہ الیٹ جس کی ہزاروں باتیں عقیل صاحب کو غلط معلوم ہوتی ہیں، یہی ایک بات صحیح کہے اور دوسرے یہ کہ اگر عقیل صاحب الیٹ کے پورے نظام فکر سے واقف ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اسی مضمون کے آخر میں (جہاں اس نے یہ بات کہی ہے) الیٹ نے تلقین کی ہے کہ لوگوں کو عیسائی ادب پڑھنا چاہیے کیونکہ وہی عظیم ترین ادب ہے۔ ان لوگوں نے الیٹ کا قول اسی معصومیت سے نقل کیا ہے جو بعض پرانے نقادوں میں نظر آتی ہے کہ وہ مغربی مصنفین کے اقوال ادھر ادھر سے چھین جھپٹ کر لکھ لاتے ہیں، لیکن انھیں نہ ان کے مضمرات کا پتہ ہوتا ہے اور نہ وہ اس بات سے سروکار رکھتے ہیں کہ جس مصنف کا ایک تنہا جملہ وہ نقل کر رہے ہیں، اس کا پورا نظام فکر کیا تھا اور اس نظام فکر میں اس جملے کی حیثیت کیا ہے؟ جن لوگوں نے الیٹ کے حوالے سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ غیرادبی معیاروں کی رو سے ہی ادب کی عظمت کا پتہ چلتا ہے، وہ یہ بات بھول گئے کہ ان ہی میں سے بعض غیرادبی معیاروں کی روشنی میں الیٹ نے عیسائی ادب کو عظیم ترین درجہ دیا ہے۔ کسی دوسرے غیرادبی معیار کی رو سے جن سنگھی یا مہاسبھائی کسی اور ادب کو عظمت کے تخت پر بٹھا دےگا، جماعت اسلامی والا کسی اور ادب کے گن گائےگا، وقس علی ہذا۔ پھر ان غیرادبی معیاروں کی اہمیت یا حقیقت کیا ہوئی؟ ہمارے پروفیسر نقاد یہ بھول گئے کہ خود الیٹ نے بھی کہا ہے کہ شاعری، مذہب یا فلسفہ یادینیات کابدل نہیں ہے۔ اس مسئلے پر دراصل یوں غور کرنا چاہیے کہ اگر کوئی فن پارہ سراسر کسی مخصوص فلسفے یا نظریے کا اظہار کرتا ہے تو پھر بقول آئیونسکو (Eugene Ionesco) اس فن پارے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس فلسفے یا نظریے کی بہترین نمائندگی اس کے مفکروں نے پیش ہی کر دی ہے، اب اس پر شعر لکھنا تضییع اوقات کہلائےگا۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ شعر کے ذریعے فلسفہ یا نظریہ سیکھنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت ذہنی طور پر کم کوش اور بےہمت ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ فلسفے کی ادق کتابیں کون پڑھے، لاؤسستی ہلکی شاعری سے وہیں باتیں تھوڑی بہت سیکھ لیں تاکہ بات چیت میں ہم جاہل نہ ٹھہریں۔ جدید نقاد سیاست یا فلسفے کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ آل احمد سرور نے جو ہماری تنقید میں لبرل اور آزاد ذہن کے بہترین نمائندہ ہیں، اپنی تنقیدوں میں اس کی اچھی مثال پیش کی ہے۔ عسکری صاحب انتہاپسند ہیں لیکن ادب، فلسفہ، سیاست اور تہذیب کے رشتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ جدید نقاد کو صرف اس بات سے انکار ہے کہ محض موضوع کی خوب صورتی یا درستگی سے ادب بھی خوب صورت یا درست ہو جائےگا۔ جدید نقاد کا کہنا ہے کہ موضوع ہیئت سے الگ نہیں ہے، معنی لفظ سے الگ نہیں ہیں۔ لفظ کو چھوڑ دینا اور مجرد نفس موضوع سے بحث کرنا، اس مفروضے میں یقین رکھنا ہے کہ جوہر، عرض سے الگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور مرا ہوا بدن اس لیے مردہ ہے کہ روح اس میں سے نکل گئی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ مادہ اتنا مرئی ہے جتنا کہ فرض کیا جاتا ہے اور نہ روح (یا جو بھی نام دے لیں) اتنی غیرمرئی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ جو جوہر ہے وہی عرض ہے۔ اسی طرح جو لفظ ہے وہی شعر ہے۔ (۲)میں نے اوپر کہا تھا، ’’تنقید عمومی اور سرسری اظہار رائے نہیں ہے۔ غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔‘‘ مضمون کا پہلا حصہ لکھ لینے کے عرصہ بعد ایف۔ آر۔ لیوس (F. R. Leavis) کا ایک قول میری نظر سے گذرا کہ نقاد کے لیے ایسے عمومی بیانات محض عیاشی ہیں، جن کو کسی مخصوص فن پارے سے متعلق نہ کیا جا سکے۔ جب کسی اہل الرائے اسے اپنی کسی بات کی تصدیق ہو تو خوشی ہوتی ہے۔ لیکن لیوس کی بات کو دور تک لے جایا جائے تو سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو نظریاتی تنقید کی ضرورت یا اہمیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں کم سے کم دو باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ اول تو یہ کہ بہت ساری نظریاتی تنقید مخصوص فن پاروں کے ہی حوالے سے بات کرتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘ ہے۔ قاضی جرجانی کی کتاب ’’المتنبی اور اس کے مخالفین کے درمیان بیچ کی راہ‘‘ اور حالی کا ’’مقدمہ‘‘ بھی اس قبیل کے ہیں۔ حالی کی فلسفیانہ اور نظریاتی اساس ذرا کم زور سہی، لیکن اس کا طریق کار بہت عمدہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ نظریاتی تنقید ایسے اصول وضع یا دریافت کرتی ہے جن کی روشنی میں مخصوص فن پاروں پر معنی خیز اور بامعنی اظہار خیال ہو سکتا ہے یعنی اگر نظریاتی تنقید نہ ہو تو بقیہ تنقید، جسے آسانی کے لیے عملی تنقید کہا جا سکتا ہے، وجود میں نہیں آ سکتا۔ تو کیا نظریاتی تنقید کو فلسفے کی ایک شاخ یا شکل کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کو یوں بھی پوچھ سکتے ہیں کہ تنقیدی نظریات فن پاروں کو ہی سامنے رکھ کر وضع یا دریافت کیے جا سکتے ہیں یا ان کی کوئی فلسفیانہ حقیقت بھی ہے جو خالص فکری سطح پر فن پاروں کے وجود سے ماورا ہے؟ اگر نظریات کا وجود (جواز نہیں صرف وجود) فن پاروں کا ہی رہین منت ہے تو تنقید کی سچائی بھی فن پاروں کی سچائی کی تابع ہو جاتی ہے۔ یعنی اگر فن پارہ جھوٹا ہے تو اس کی روشنی میں وضع یا دریافت کردہ نظریات بھی جھوٹے ہوں گے۔ لیکن اگر نظریات کو فن پارے سے الگ اور محض ایک تفکیری سرگرمی کا نتیجہ قرار دیا جائے تو تنقیدی نظریات ایک خارجی چیز ٹھہریں گے اور شاعر سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ان نظریات کی پابندی کرے، اس کی آزادی پر ضرب کاری لگانا ہوگا۔  اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اگر شاعر اس مطالبے کو پورا کرکے سچے فن پارے خلق کرسکے اور سچائی کی خاطر اس کی تھوڑی سی آزادی سلب بھی ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟ اس خیال میں جو خطرات ہیں ان کی وضاحت چنداں ضروری نہیں کیونکہ آزادی کو سلب کرنے کا عمل ایک بار چل پڑے تو اس کی انتہا آمریت اور قطعیت ہوتی ہے اور کوئی فلسفیانہ اصول چاہے وہ کتنا ہی خالص کیوں نہ ہو، اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں سیاسی دار وگیر سے ضرور جا ملتے ہیں۔ افلاطون اور ہیگل (Hegel) نے مارکسی سیاست کی انتہا پسندی اور کانٹ (Kant) اور نطشہ (Nietzsche) نے ناتسی بہیمیت کو جنم دیا، لہٰذا فلسفیانہ سچائی کوئی مطلق خوبی نہیں ہوتی کہ اس کی پابندی کرنے میں شاعر کے لیے فلاح ہی فلاح ہو، لیکن یہ کہہ دینا بھی کافی نہیں کہ تنقیدی نظریات کی کوئی فلسفیانہ اساس یا حقیقت نہیں۔ تنقیدی نظریات بس ہوتے ہیں اور کچھ نہیں، کیونکہ اگر تنقیدی نظریات مروجہ معنوں میں فلسفیانہ نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ شاعری میں غلط اور صحیح کے معیار محض ذاتی ہوتے ہیں اور اگر ایسا ہے تو پہلا سوال پھر آموجود ہوتا ہے کہ نظریات کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر اس سوال کاجواب وہی رکھا جائے جو شروع میں بیان ہوا، کہ بہت ساری نظریاتی تنقید مخصوص فن پاروں کے حوالے سے ہی بات کرتی ہیں اور اس کی فلسفیانہ حقیقت کچھ نہیں ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظریاتی تنقید جن اصولوں کو وضع یا دریافت کرتی ہے اور جن کی روشنی میں کسی مخصوص فن پارے (یا تمام فن پاروں) پر اظہار خیال ہو سکتا ہے، اپنی صحت کا کیا جواز رکھتے ہیں؟ اگر ان کا جواز یہ ہے کہ وہ فن پاروں سے برآمد کیے گئے ہیں، یا ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انھیں فن پاروں سے برآمد کیا جا سکتا ہے تو دوسرا سوال آ دھمکتا ہے کہ ان فن پاروں کی ہی صحت یا عدم صحت (یعنی خوبی اور ناخوبی یا سچائی اور جھوٹ پن) کے بارے میں آپ کے پاس کیا دلائل ہیں؟ تنقیدی نظریات سچے ہیں کیونکہ وہ فن پاروں سے برآمد کیے گئے ہیں اور فن پارے سچے ہیں کیونکہ تنقیدی نظریات انھیں سچا ثابت کرتے ہیں۔ اس استدلال کا اہمال ظاہر ہے۔  دو شخص ایک دوسرے کو سچا کہیں تو جب تک ان دونوں کی صداقت الگ الگ ثابت نہ ہو، ان کی شہادت کی وقعت خاک برابر بھی نہیں ہوسکتی۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے نظریات چونکہ ایسے فن پاروں سے مستنبط کیے گئے ہیں جن کی خوبی مرور ایام کے ذریعہ مسلم ہو چکی ہے یعنی امتداد زمانہ نے ان کی عظمت یا خوبی کے تاثر کو کم نہیں کیا ہے، لہٰذا ان نظریات کو صحیح کہناہی پڑےگا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ درجنوں شاعر ایسے ہیں جن کی خوبی کا احساس لوگوں کو ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ماضی کے بہت سے شاعروں کی خوبی سے ہم ابھی ناواقف ہوں یا ان شاعروں ہی سے ناواقف ہوں اور ممکن ہے ان کو سامنے رکھ کر جو نظریات وضع کیے جائیں، وہ ان نظریات سے مختلف ہوں کہ جو کہ اس وقت مروج ہیں۔ خیر، یہ تو محض ایک باریک بیانی ہے۔ جس چیز کا محض خفیف امکان ہو، اسے منطق بھی نظرانداز کر دے تو کچھ خاص عیب نہیں۔ لیکن کسی فن پارے کی خوبی کے لیے محض یہ دلیل کہ عرصۂ دراز سے لوگ اسے خوب صورت کہتے آئے ہیں، بعض دوسرے مسائل ضرور پیدا کرتی ہیں، مثلاً یہ کہ کون سے لوگ اسے خوب صورت کہتے آئے ہیں؟ اور ’’عرصۂ دراز‘‘ کی تعریف کیا ہو؟ کیا پچاس سال کا عرصہ اس مقصد کے لیے ’’عرصۂ دراز‘‘ ہے، یا اس سے کم یا اس سے زیادہ؟ اور کتنا کم اورکتنا زیادہ؟ فرض کیجیے کہ اس سوال کو بھی یوں ہی چھوڑ دیں اور کہیں کہ ’’عرصۂ دراز‘‘ کی ایک مثالی تعریف ہر شخص کے ذہن میں ہے لیکن اسے متشکل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوال بھی بالائے طاق رکھ دیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جو اس مثالی عرصۂ دراز سے کسی فن پارے کو اچھا کہتے آئے ہیں۔ اس کاجواب بھی ہم یہ کہہ کر دے سکتے ہیں کہ جس طرح عرصۂ دراز کی ایک مثالی تعریف ہے اسی طرح ’لوگ‘ یا ’عوام‘ کی بھی ایک مثالی تعریف ہے جسے متشکل نہیں کیا جا سکتا، لیکن وہ موجود ہے۔ اب مندرجہ ذیل دو صورت حالات پر غور کیجئے، (۱) ایک ملک ایساہے جہاں فن پارے تو ہیں لیکن تنقیدی نظریات نہیں ہیں۔ وہاں کے لوگ فن پاروں کا وجود کس طرح ثابت کرسکیں گے؟ اور یہ کس طرح ثابت کرسکیں گے کہ فلاں فلاں فن پارہ اچھاہے اور فلاں برا (یعنی جھوٹا یا ناکام یا کم تر درجے کا ہے)، (۲) ایک ملک ایساہے جہاں اچانک ایک ایسا فن پارہ وجود میں آتا ہے، جوکسی بھی تنقیدی نظریے پر پورا نہیں اترتا۔ وہاں کے نقاد نزدیک دور کی تمام تاریخ پلٹ کر دیکھ ڈالتے ہیں لیکن اس فن پارے کا جواز انھیں کہیں نہیں ملتا۔ ظاہر ہے کہ وہ اسے فن پارہ ماننے ہی سے انکار کر دیں گے۔ اتفاقاً وہاں کسی دور دراز ملک سے ایک صاحب تشریف لاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے ملک میں جو تنقیدی نظریات مروج ہیں، ان کی رو سے یہ فن پارہ ایک شاہکار ہے۔ پہلی صورت حال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جہاں فن ہوگا وہاں تنقید بھی ہوگی، کیونکہ فن بھی ایک طرح کی تنقید ہے، یعنی فنکار جب کسی مخصوص شکل میں اپنا اظہار کرتا ہے تو اس شکل کو اپنی حد تک اطمینان بخش یا اپنے اظہار کی بہترین صورت بنانے کی شکل کی حد تک ایک تنقید کار گزاری عمل میں لاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تنقیدی نظریات (یا چلیے نظریات نہیں احساسات سہی) ایک طرح کا آزاد وجود رکھتے ہیں اور فن پارے کے کلیتاً تابع نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر تنقیدی نظریات کو فلسفیانہ سچائی کا حامل کہنے سے ہمیں کون روک سکتا ہے؟ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ شاعر کا تنقیدی عمل چاہے وہ خودکار ہو یا شعوری ہو، وہ مجرد طور پر تو عمل میں آتا نہیں، شاعر جب اپنے اظہار کو ممکن حد تک اطمینان بخش بنانے یا اظہار کو بہترین شکل دینے کی کوشش کرتا ہے اور کوشش کے دوران میں وہ بعض الفاظ، تراکیب، واقعات، خیالات وغیرہ کو رد اور بعض کو قبول کرتا ہے تو اس ترجیح واسترداد کے پس پشت دوسرے فن پاروں کا احساس اور دوسرے شعرا کے خیالات کا کچھ نہ کچھ اعتراف ہوتا ہی ہے۔  دوسرے الفاظ میں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شاعر اپنے پیش روؤں، اپنے ماحول اور اپنے مطالعہ کو اپنی شعر گوئی سے اس درجہ منہا کرے کہ جب وہ اپنا اظہار کرے تو اس اظہار کی حد تک پیش روؤں، ماحول اور مطالعہ کا عدم اور وجود برابر ہو جائیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ دعویٰ غلط ہو جاتا ہے کہ تنقیدی نظریات یا احساسات فن پارے کے کلیتاً تابع نہیں ہوتے بلکہ ایک آزاد اور لازمی وجود رکھتے ہیں۔ لیکن پھر وہ شخص کیسا رہا ہوگا جس نے کسی زبان میں سب سے پہلا فن پارہ تخلیق کیا ہوگا؟ دنیا میں اب بھی ایسی قومیں موجود ہیں جن کی زبان بہت محدود اور محض چند سادہ الفاظ پر مبنی ہے یعنی ان قوموں کا ذہنی (یا لسانی) ارتقا بہت کم درجے کا ہے۔ ان سے آگے وہ قومیں ہیں جن کے یہاں زبان نسبتاً ترقی یافتہ ہے لیکن ان کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی زبانوں میں تنقیدی نظریات (اگر یہ نظریات فن پاروں کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں) کا وجود نہ ہوگا تو پھر ان زبانوں کاشاعر جب کسی مخصوص طرز اظہار کو قبول یا رد کرتا ہے تو اس کی تنقیدی بصیرت کہاں سے آتی ہے؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ایسی زبانوں میں فن پارہ ہوگا ہی نہیں۔ اول تو یہ جواب مشتبہ ہے (کیونکہ ان میں سے اکثر زبانوں مثلاً اسکیمو اور شمالی امریکہ یا افریقہ اور ہندوستان کی بہت سی قبائلی زبانوں میں شاعری موجود ہے۔ )  لیکن اگر مان لیا جائے کہ یہ جواب صحیح ہے تو یہ سوال پھر بھی رہتا ہے کہ اگر یہ زبانیں ترقی کر جائیں (یعنی ان کے بولنے والوں کی تہذیبیں ترقی کر جائیں) اور اس حد تک ترقی کر جائیں کہ وہ فن پارے کی تخلیق کی متحمل ہو سکیں تو ان کا پہلا شاعر کن بنیادوں پر رد وقبول کا عمل کرےگا؟ ہم جانتے ہیں کہ مثلاً عربوں نے اس زمانے میں بھی اعلیٰ درجے کی شاعری لکھی جب ان کی تہذیب بہت پس ماندہ اور محدود تھی اور ان کے یہاں تنقیدی اصول تو کیا، عروض بھی مدون نہ ہوا تھا۔ اس بحث کی روشنی میں یہ نتیجہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ تخلیق اور تنقید میں ایک لازمی رشتہ ہے۔ جہاں فن ہوگا وہاں تنقید بھی ہوگی اور اس حد تک تنقید بھی ایک فلسفیانہ یعنی لازمی وجود رکھتی ہے۔ یعنی تنقیدی نظریات اپنی تفصیلی صورت میں فلسفیانہ حقیقت کے حامل شاید نہ ہوں لیکن تنقید خود ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے۔ اب دوسری صورت پر غور کیجئے۔ کسی ملک میں ایسا فن پارہ وجود میں آتا ہے جو کسی بھی تنقیدی نظریے پر پورا نہیں اترتا۔ وہاں کے نقاد اس کو فن پارہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اسے فن پارہ ماننے سے انکار کرنے کی منزل ہی کہاں آئی۔ اگر فن پارے کی پہچان محض ان تنقیدی اصولوں کی روشنی میں ممکن ہے جو اس ملک میں سائر ودائر ہیں اور ہمارا مفروضہ فن پارہ ان اصولوں پر پورا نہیں اترتا تو گویا اس کا وجود ہی نہیں۔  آنکھ اشیا کا علم اس طرح حاصل کرتی ہے کہ پتلی پر ان کا عکس پڑتا ہے۔ اگر عکس نہ پڑے تو وہ شے موجود ہو یا لاموجود، لیکن آنکھ کے لیے تو وہ موجود نہ ہوگی، لہٰذا وہ فن پارے (یا اور صحت سے کہیے تو وہ تخلیقات) جو تنقیدی اصولوں کی آنکھ پر منعکس نہیں ہوتیں، لاموجود ہیں۔ لیکن کیا وہ واقعی لاموجود ہیں۔ اگر تنقیدی نظریات صرف موجود فن پاروں کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں تو ممکن فن پاروں پر ان کا اطلاق، ممکن فن پاروں کی فنی حیثیت کا ثبوت ان نظریات کے ذریعہ حاصل ہونا لازمی نہیں۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ کوئی فن پارہ واقعی وجود میں آ جائے لیکن لوگ اس سے بے خبر رہیں، کیونکہ ممکن ہے موجود فن پاروں کی روشنی میں مرتب کیے گئے اصول اس کو دریافت کرنے سے قاصر رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فن پارہ اپنی جگہ پر ایک آزاد وجود رکھتا ہے۔ یہ بات کہ مروج تنقیدی نظریات اسے فن پارہ ثابت نہیں کر سکتے، اس کی فنی حیثیت پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، یعنی فن پارے کا فن پارہ ہونا ایک مطلق حقیقت ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو تنقید محض ایک محدود قسم کی سماجی کارگزاری ہوکر رہ جاتی ہے، یعنی وہ موجود فن پاروں کے بارے میں کلام کرتی ہے اور ان کی قدر وقیمت سے ہمیں آگاہ کرتی ہے۔ اس سے یہ فائدہ تو پہنچ سکتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں فلاں شاعر اچھے یا سچے یا قابل ذکر ہیں اور اس طرح لوگوں میں فن پارے کے بارے میں معلومات اور آگاہی کا اضافہ ہو اور لارنس لرنر (Laurence Lerner) کے الفاظ میں ادب کی Prestige قائم ہو۔ لیکن یہ کام تو تبصرہ نگار اور انشا پرداز بڑی خوبی سے انجام دے لیتے ہیں۔ (بدقسمتی سے اردو کے زیادہ تر نقاد اسی ضمن میں آتے ہیں) پھر تنقیدی نظریات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر یہ نظریات کمبخت نہ ہوتے تو تبصرہ نگار اور انشا پردراز بھی محض منھ کی کھاتے، کیونکہ ان کی تحریریں علمی اور فلسفیانہ اعتبار سے کتنی ہی پس ماندہ سہی، لیکن ان کی اساس تو کسی نہ کسی نظریے پر ہوتی ہے۔ ان بحثوں کو آگے بڑھانے سے پہلے، اب تک جو خیالات سامنے آئے ہیں، ان کو سمیٹنا ضروری ہے، کیونکہ بات کچھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔  (۱) میں نے شروع میں تنقید کے بارے میں یہ دعوے کیے تھے کہ وہ معلومات نہیں، علم عطا کرتی ہے، گول مول باتیں نہیں کرتی۔ وہ ادب کو بیان کرنے کے لیے ایسے الفاظ تلاش کرتی ہے جن کا استعمال درستی اور صحت بیان کے لیے ناگزیر ہو۔ وہ صحیح ترین بیان کی تلاش کے ذریعے ایسے اصول مرتب کرتی ہے جن کی روشنی میں صحیح ترین بیان تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔  (۲) تنقیدی نظریات فن پاروں کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں، اس لیے ان کی رہنمائی اس بات کو طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کون سی تخلیق فن پارہ ہے، کون سی تخلیق فن پارہ نہیں ہے، کون سا فن پارہ بہتر ہے اور کیوں بہتر ہے؟  (۳) اس میں گڑبڑ یہ ہے کہ اگر فن پارہ جھوٹا ہوگا تو اس پر مبنی تنقیدی اصول ونظریات بھی جھوٹے ہوں گے۔  (۴) کسی فن پارے کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ مرور ایام کے باوجود اس کی خوبی مسلم رہتی ہے۔  (۵) لہٰذا تنقیدی نظریات میں کوئی فلسفیانہ سچائی نہیں ہوتی یعنی ان میں ایسی سچائی نہیں ہوتی جسے مجرد فلسفیانہ طور پر ثابت کیا جا سکے۔  (۶) لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو شاعر کا خودکار یا شعوری تنقیدی عمل، جس کے ذریعہ وہ اظہار کے بعض اسالیب کو رد اور بعض کو قبول کرتا ہے، لاموجود ٹھہرتا ہے، حالانکہ یہ ثابت ہے کہ ایسا تنقیدی عمل موجود ہے۔  (۷) لہٰذا تنقیدی نظریات میں فلسفیانہ سچائی ہو یا نہ ہو لیکن تنقیدی شعور میں یقیناً ایک طرح کی لازمیت ہوتی ہے۔  (۸) گویا تنقیدی شعور اور تنقیدی نظریات الگ الگ چیزیں ہیں۔ یعنی تنقیدی نظریات مؤخر ہیں اور تنقیدی شعور مقدم۔  (۹) اگر تنقیدی شعور مقدم ہے تو فن پارے کا وجود لازمی اور مطلق ہو جاتا ہے، کیونکہ شاعر اپنے تنقیدی شعور کو کلام میں لاکر فن پارے کی تخلیق کرتا ہے۔ تنقیدی نظریات چونکہ صرف موجود سے علاقہ رکھتے ہیں، ممکن سے نہیں، اس لیے تنقیدی نظریات تمام ممکن فن پاروں کے لیے کافی نہیں ہو سکتے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ کوئی تخلیق سچا فن پارہ ہو لیکن تنقیدی نظریات اسے دریافت نہ کر سکیں۔  (۱۰) لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید ایک فالتو قسم کی کارگزاری ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ تنقیدنگار کو سماجی طور پر ایک کارآمد شخص بنائے۔ یعنی تنقید نگار کا تفاعل یہ ہے کہ وہ ادب کے بارے میں گفتگو کرکے اس کو مقبول بناتا ہے یا اس کے بارے میں ہماری آگاہی اور معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کام میں نظریاتی تنقید (یعنی تنقیدی نظریات) دکھائی نہ دینے والی بنیاد کا کام کرتے ہیں۔ یہاں تک پہنچ کر ٹھٹکنا فطری ہے کیونکہ نمبر ۲ سے لے کر نمبر ۱۰ تک تنقید کے بارے میں جو کہا گیا ہے وہ نمبر ایک کی تقریباً تمام وکمال نفی کرتاہے۔ یہ بات شاید کسی کو منظور نہ ہو کہ تنقیدی نظریات کو وضع یا دریافت کرنے والا مفکر ایک فالتو جانور ٹھہرے اور تبصرہ نگار، انشا پرداز اور فن کے بارے میں ہوائی خیال آرائیاں کرنے والے پروفیسر صاحبان اصلی نقاد ٹھہریں، اور ان کی بھی قدر وقیمت محض ایک کار آمد منشی کے برابر ہو۔ لیکن مندرجہ بالا خیالات سے بعض اور نتائج اور کچھ مزید سوالات برآمد ہوتے ہیں، ان پر بھی توجہ ضروری ہے۔ اتنی دیر تک نقاد صاحبان کی خود پسندی کو تھوڑی ٹھیں اور لگتی ہے تو لگتی رہے، ہمیں تو حقیقت کی تلاش ہے۔ اس تلاش کے دوران کسی نہ کسی کی نکسیر تو پھوٹےگی ہی، ہماری بلا سے۔ اگر تنقیدی شعور اور تنقیدی نظریات الگ الگ چیزیں ہیں، تو دونتیجے برآمد ہوتے ہیں۔ یا تو یہ کہا جائے کہ نظریاتی تنقید محض عقلی گدا ہے، وہ تنقید نہیں بلکہ غیرتنقید ہے۔ اس لیے کہ اس کی صحت مسلم نہیں، فن پارے پر منحصر ہے، اس میں کوئی ذاتی سچائی نہیں ہوتی یا پھر یہ کہا جائے کہ چونکہ تنقیدی شعور کی شکل میں اس کے تخلیقی عمل میں پیوست ہے، تخلیقی عمل کے باہر تنقید کا وجود نہیں۔ چونکہ دنیا کے بہت سے اہم نقاد حضرات شاعر نہیں تھے یا اگر تھے تو بہت معمولی درجے کے شاعر تھے اور چونکہ شاعروں نے اکثر ناراض ہوکر یہ کہا ہے کہ تنقید کا حق صرف شاعر کو ہے یعنی اگر کوئی شاعری پر تنقید لکھنا چاہے تو اسے خود شاعر ہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ بیان کہ تخلیقی عمل کے باہر تنقید کا وجود نہیں، بہت سے لوگوں کو پسند آئےگا۔ اسی بیان کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ چونکہ فن پارے سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت ایک داخلی یا موضوعی صلاحیت ہے، اس لیے اس باب میں ہر شخص کی رائے مستند ہے۔ اگر کسی فن پارے کے بارے میں دو شخصوں کی رائے مختلف ہو تو کوئی ہرج نہیں، دونوں اپنی جگہ صحیح ہیں۔ معاملے کے یہ دونوں پہلو کتنے ہی دل کش سہی، لیکن دونوں میں استدلال غلط ہے۔ جہاں تک سوال اس دعوے کا ہے کہ صرف شاعر ہی کو تنقید کا حق ہے، اس کو منہدم کرنے کے لیے اتنی ہی یاد دہانی کافی ہے کہ کوئی شخص شاعر ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ بھی تو آپ تنقیدی نظریات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ گویا ایک طرف تو آپ تنقیدی نظریات کی رو سے زید کو شاعر مانتے ہیں، پھر دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ تنقیدی نظریات بکر کے بنائے ہوئے ہیں، جو شاعر نہیں تھا، اس لیے یہ نظریات غلط یا نادرست ہیں۔ اگر فرض کیا جائے کہ آپ تنقید کے وجود سے ہی انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تنقیدی شعور صرف شاعر کی میراث ہے اور وہ بھی اس حد تک، جس حد تک یہ شعور تخلیقی عمل میں پیوست ہے تو بھی یہی سوال رہتا ہے کہ کسی شخص کو شاعر ماننے کے لیے آپ نے جو معیار استعمال کیے ہیں وہ کہاں سے آئے؟ اگر وہ معیار معروضی، لازمی اور فلسفیانہ ہیں تو پھر یہ دعویٰ بے معنی ہو جاتا ہے کہ صرف شاعر تنقیدی شعور کا مالک ہوتا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ معروضی اور فلسفیانہ معیار شاعر نے تو بنائے نہیں ہیں اور یوں بھی فلسفیانہ حقائق کسی کی ملکیت نہیں ہوتے اور اگر وہ معیار معروضی اور فلسفیانہ نہیں ہیں تو ان کی روشنی میں آپ کا یہ دعویٰ کہ فلاں شخص شاعر ہے، بے دلیل ٹھہرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر نظریاتی تنقید ایک غیرتنقیدی کارگزاری ہے کیونکہ شاعر کا تنقیدی شعور اس پر مقدم ہے تو پھر یہ نظریاتی تنقید بہت ساری شاعری کو سمجھنے اور سمجھانے میں کارآمد کیوں ہے؟ الیٹ کا یہ کہنا درست سہی کہ جب بھی کوئی نیا فن پارہ خلق ہوتا ہے تو گذشتہ تمام فن پارے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست سہی کہ ہر نسل یا کم سے کم ہر دور گذشتہ فن پاروں کو اپنے اپنے طور سے پرکھتا اور پڑھتا ہے، لیکن پھر بھی یہ بات مسلم ہے کہ بہت سی نظریاتی تنقید ان فن پاروں پر بھی کارآمد ہو جاتی ہے جن کے وجود سے نظریاتی نقاد بے خبر تھا۔  مثلاً ڈرامے کے بارے میں ارسطو کے سب نہیں تو بعض خیالات مشرقی اور خاص کر چینی ڈرامے پر بھی منطبق ہو سکتے ہیں۔ نظریاتی تنقید کا تمام ممکن فن پاروں کے لیے صحیح ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ لیکن چونکہ بہت جگہ وہ ممکن فن پاروں کے لیے صحیح پائی گئی ہے، اس لیے یا تو تمام فن پاروں (یعنی فن) میں کوئی ایسی خصوصیت ہوگی جو تمام موجود و ممکن فن پاروں میں مشترک ہو یا پھر تنقیدی نظریات ہی میں کوئی ایسی بات ہوگی جسے فلسفیانہ سچائی نہیں تو فلسفیانہ قسم کی سچائی کہے بغیر چارہ نہیں۔ یہاں اس سوال کا سامنا کرنا ضروری ہے کہ فلسفیانہ سچائی سے کیا مراد ہے؟ میں نے شروع میں کہا تھا کہ تنقید اس قسم کا علم نہیں عطا کرتی جسے فلسفیانہ اصطلاح میں علم کہا جاتا ہے، یعنی ایسا بیان جسے بیان ثابت کیا جا سکے۔ ثابت کرنے کی شرط یہ ہے کہ ثبوت انسانی کمزوریوں اور حدود سے بالاتر ہو۔ مثال کے طور پر یہ ایک فلسفیانہ بیان ہے کہ مثلث کے تینوں زاویوں کا جوڑ دو زاویۂ قائمہ کے برابر ہوتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مثلث کو ناپ کر دیکھ لیجئے لیکن یہ ثبوت انسانی کمزوریوں اور حدود سے بالا تر نہیں، کیونکہ مثلثوں کی تعداد لامتناہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی ایک شخص یا بہت سے شخص بھی تمام مثلثوں کو نہیں ناپ سکتے۔ ممکن ہے کہ لامتناہی اشخاص مل کر مثلثوں کو ناپ ڈالیں لیکن لامتناہی اشخاص کا تصور محض خیالی ہے۔ اس سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ اس بات کا ثبوت کہاں سے آئےگا کہ تمام ناپنے والوں کے پیمانے صحیح، ان کی نگاہ درست، ان کے ہاتھ رعشہ اور لرزہ سے عاری اور ان کی قوت جمع وتفریق مستقل اور مکمل ہے اور یہ کیوں کر ثابت ہوگا کہ جس چیز کو وہ لوگ ناپ رہے تھے وہ مثلث ہی تھا یا مثلث کے ہی زاویے تھے، لہٰذا عملی ثبوت بےکار ہے۔ فلسفیانہ ثبوت اور حدود سے بالاتر ہوکر بہ الفاظ دیگر یہ کہتا ہے کہ اگر مثلث صحیح ہے اور اگر اس کے زاویے صحیح ناپے جائیں تو اس کے تینوں زاویوں کا جوڑ دو زاویۂ قائمہ کے برابر ہوگا۔ اب جس کو شک ہو وہ ناپ کر دیکھ لے۔ لہٰذا فلسفیانہ سچائی وہ سچائی ہوتی ہے جو عملی ثبوت سے بےنیاز اور انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہونے کی وجہ سے ان تمام حالات میں سچ رہتی ہے جن کے ذریعہ وہ وجود میں آتی ہے۔ اب اس بیان کے سامنے مثلاً حسب ذیل بیان رکھیے، ہر وہ نظم جس کا پہلا شعر ہم قافیہ ہو اور جس کے بقیہ شعر پہلے شعر سے ہم قافیہ لیکن الگ الگ مضمون رکھتے ہوں، غزل ہوگی۔ اس کو ثابت کرنا اس لیے ناممکن نہیں ہے کہ ایسی نظموں کی تعداد لامتناہی ہے جو اس بیان پر پوری اتریں۔ یہ اس لیے ناممکن ہے کہ اس بیان کے تمام ضروری اجزاء خود محتاج تعریف ہیں۔ مثلث کی تعریف تو معلوم ہے، زاویے اور زاویۂ قائمہ کی تعریف بھی معلوم ہے اور تعریفیں ایسی ہیں کہ ان میں خلط مبحث یا شک کی گنجائش نہیں، مثلاً مثلث کی تعریف یوں ہوگی،  ایک سیدھی لکیر جس کے دونوں سروں پر دو سیدھی لکیریں ہوں اور وہ لکیریں کسی نہ کسی ایسی جگہ جاکر مل جائیں جو Infinity کے پہلے واقع ہو۔ سیدھی لکیر کی تعریف بھی معلوم ہے کہ دو نقطوں کے درمیان کم ترین فاصلہ سیدھی لکیر ہوتی ہے۔ اب ہمارے تنقیدی بیان پر آئیے، نظم، شعر، قافیہ، مضمون یہ اس کے ضروری اجزا ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی تعریف ممکن نہیں، متفق علیہ تعریف وضع کرنا تو دور کی بات ہے، لہٰذا یہ بیان کہ ’’ہروہ نظم۔۔۔ الخ‘‘ ایک تنقیدی بیان ہے تو ہے، لیکن فلسفیانہ بیان نہیں۔ فلسفیانہ بیان میں بعض خصوصیات اور بھی ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ اس کی بنیاد مفروضے پر ہوتی ہیں لیکن اس مفروضے یا بصیرت پر جو فکری عمارت کھڑی ہوتی ہے وہ استدلال پر قائم ہوتی ہے۔ مابعد الطبیعیات میں ایسے ہی فلسفیانہ بیانات نظر آتے ہیں۔ مثلاً ہیگل کا مفروضہ کائنات ایک مطلق تصور (Absolute Idea) ہے۔ اس خیال پر برٹرنڈ رسل کتنا ہی ہنسے لیکن یہ حقیقت برقرار رہتی ہے کہ ہیگل نے اس مفروضے یا بصیرت کے سہارے جو فلسفہ تعمیر کیا ہے وہ اپنی جگہ پر نہایت مشرح اور منضبط اور پر استدلال ہے۔ تنقیدی مفروضات اس خصوصیت سے عاری ہوتے ہیں، مثلاً ایڈیسن (Addison) اور اس کی دیکھا دیکھی ایڈگر ایلن پو (Edgar Allan Poe) کامفروضہ ہے کہ ’’ذوق ہمیں حسن کے بارے میں مطلع کرتا ہے۔‘‘ ممکن ہے یہ مفروضہ صحیح ہو لیکن چونکہ نہ حسن کی تعریف معلوم ہے اور نہ ذوق کی، اس لیے یہ بیان اپنی تمام گہرائی کے باوجود دندان تو جملہ در دہانند کی یاد دلاتا ہے۔ فلسفیانہ بیان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اگر ایک بیان ناکافی ہو تو اس کی جگہ دوسرا بیان وضع کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اقلیدس کی بنائی ہوئی جیومیٹری عرصۂ دراز تک بالکل صحیح سمجھی جاتی رہی۔ نیوٹن نے تو اقلیدس کی کتاب چند صفحے پڑھ کر پھینک دی کہ اس میں لکھی ہوئی سب باتیں بالکل Self Evident ہیں۔ لیکن بعد میں معلوم ہواکہ حیات وکائنات کے بہت سے مظاہر ایسے ہیں جن پر اقلیدس کا اطلاق نہیں ہو سکتا (مثلاً بعض حالات میں سیدھی لکیر دو نقطوں کے درمیان کم ترین فاصلہ نہیں ہوتی) لہٰذا غیر اقلیدس جیومیٹری وجود میں آئی یا دریافت کی گئی۔ عام حالات میں اقلیدس ہی صحیح ہے۔ لیکن طبیعیات اور کیمیا کے بعض پیچیدہ مسائل، خلائی سفر کے بہت سے معاملات غیراقلیدس جیومیٹری سے حل کیے جاتے ہیں۔  دوسری صورت یہ ہے کہ بعض فلسفیانہ بیانات غلط معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان کو غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ دوسرا بیان وضع نہ کیا جائے۔ رسل نے اس کی ایک بہت عمدہ مثال دی ہے کہ ایک مشہور جرمن ماہر حساب نے مندرجہ ذیل مقدمہ وضع کیا، ’سونے کا پہاڑ وجود نہیں رکھتا۔ ‘ بات بالکل صحیح ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جب ہمیں کسی مرئی شے کا احساس ہو گیا یا اس کا تصور ہمارے ذہن میں آگیا تو یہی اس کے ہونے کا ثبوت ہے۔ یعنی وہ اشیا جو مرئی وجود نہیں رکھتیں ہمارے ذہن میں آ ہی نہیں سکتیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جن ملکوں میں برف نہیں پڑتی یا جہاں برف کا وجود نہیں ہے، ان کی زبان میں برف کے لیے کوئی لفظ بھی نہیں ہے۔ اگر سونے کا پہاڑ موجود نہیں ہے تو اس کا تصور ہمارے ذہن میں کہاں سے آیا؟ رسل نے برسوں غور وخوض کے بعد اپنا نظریۂ بیانات (Theory of Descriptions) وضع کیا اور جرمن ماہر حساب کے مقدمے کو یوں بدل دیا، ’’کوئی شے ایسی نہیں ہے جو پہاڑ بھی ہو اور سونے کی بھی بنی ہو۔‘‘ مقدمہ وہی رہا لیکن بیان کے بدلنے کی وجہ سے غلط بات بھی صحیح ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی تنقید اس قسم کے بیانات نہیں وضع کر سکتی۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ تنقیدی نظریات میں فلسفیانہ قسم کی سچائی ہوتی ہے کیونکہ موجود کے علاوہ ممکن پر بھی ان کا تھوڑا بہت اطلاق دکھایا جا سکتا ہے (جیساکہ میں اوپر کہہ چکا ہوں) اس کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ تمام فن پاروں میں ہی کوئی ایسی لازمیت ہوگی کہ ان کے حوالے سے بنائے گئے نظریات میں تھوڑی بہت لازمیت آجاتی ہو یا پھر فی نفسہ تنقیدی نظریات میں کوئی فلسفیانہ عنصر ہوگا۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہمیں پھر افلاطونی عینیت کا سہارا لینا ہوگا۔ ممکن ہے ہم اسے آخری تجزیے میں رد کردیں، لیکن غزل کا سراغ وہیں سے ملتا ہے۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ فن پارہ پڑھتے وقت ہم کسی وقت کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں، لہٰذا فن پارے میں جو تھوڑی بہت لازمیت ہوگی وہ اسی تجربے کے حوالے سے ہوگی، مثلاً جب ہم دھوپ میں نکلتے ہیں تو ہمیں گرمی کا تجربہ ہوتا ہے، لہٰذا دھوپ میں جو بھی لازمیت ہوگی وہ اسی گرمی کے حوالے سے ہوگی۔ فن پارے کے ذریعے ہم جس تجربے سے دوچار ہوتے ہیں، اس کا یا اس کی لازمیت کا مطالعہ دو طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ آیاکہ یہ تجربہ مقصود بالذات ہے یا دراصل وہ نتیجہ مقصود ہے جو اس تجربے کے ذریعے ہمارے ذہن یا شخصیت پر مرتب ہوتا ہے؟  افلاطون نے فن کو عینی حیثیت سے پرکھا اور اسے جھوٹا پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فن پارے کے ذریعہ حاصل ہونے والے تجربے کا نتیجہ انسانوں کے ذہنوں پر وہی ہوگا جو جھوٹ کا ہوتا ہے۔ جھوٹ علم کی ضد ہے اور بقول سقراط، علم ہی سب سے بڑی خوبی ہے، لہٰذا فن پارے کے وسیلے سے ہم جس تجربے سے دوچار ہوتے ہیں، وہ ہمیں جھوٹا یعنی کم علم بناتا ہے اور جھوٹ کے بقیہ تمام اثرات مثلاً بزدلی، دیوتاؤں سے عدم الفت وغیرہ اس کے ذریعہ ہم پر مرتب ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے افلاطون کے اصول کو صحیح لیکن اس کے نتیجے کو غلط قرار دیتے ہوئے تنقیدی نظریات قائم کیے، انھوں نے کہا کہ فن کے ذریعے حاصل ہونے والے تجربے کا نتیجہ وہ نہیں ہے جو افلاطون بیان کرتا ہے بلکہ اس تجربے کی وجہ سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ چنانچہ ارسطو نے کہا کہ شاعری، تاریخ کی بہ نسبت زیادہ فلسفیانہ ہے۔ بعض دوسرے نقادوں نے بھی اس طرح کے خیال کا اظہار کیا کہ شاعری عمومی اور تمام حالات پر منطبق ہو جانے والی سچائی بیان کرتی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ فن کے ذریعہ انسانوں کی تعلیم ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ خیال آیا کہ اگر تعلیم کے پہلو پر زیادہ زور دیا گیا تو فن کی عینی حیثیت کہ اس میں کچھ فنیت (Artness) ہوتی ہے، مجروح ہو سکتی ہے، انھوں نے کہا کہ فن پارے کے تجربے کا نتیجہ تعلیم اور لطف دونوں ہے۔ لیکن اگر تعلیم (یعنی اخلاقی پہلو) واضح نہ ہو تو لطف بےکار ہے۔ حالی اور ان کے بعد ہمارے ترقی پسند نظریہ سازوں کا یہی مذہب تھا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر فن کے ذریعہ حاصل ہونے والے تجربے کے نتیجے کو اہم بتایا جائے تو افلاطونی زبردستیوں اور ترقی پسند زبردستیوں کے دباؤ میں فن گھٹ کر رہ جاتا ہے اور خالص سطح پر فن اور کسی دیگر علم مثلاً ریاضی یا معاشیات میں کوئی فرق قائم نہیں ہو سکتا۔ افلاطون کا اعتراض تھاکہ شاعری مخرب الاخلاق ہے۔ ترقی پسندوں نے جواب دیا کہ شاعری کو مصلح الاخلاق بنایا جا سکتا ہے۔ (حالی ان کے پیش رو تھے۔ ) افلاطون کے نزدیک شاعری کے ذریعہ انسانوں میں بزدلی پیدا ہوتی ہے۔ ترقی پسندوں نے اور حالی نے کہا کہ اگر شاعری سے ’’صحت مند‘‘ اور ’’تعمیری‘‘ نتیجے مرتب ہوں تو وہ بری چیز نہیں۔ دونوں کے اصول ایک ہیں، فرق صرف طریق کار کا ہے۔  شاعر کے نتیجے کو اہم قرار دینے والوں نے اس بات کو نظرانداز کر دیا کہ اگر نتیجہ (یعنی اگر عملی دنیا میں اخلاقی بہتری کے ذرائع پیدا کرنا) سب کچھ ہے تو شاعری کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ یہ کام تو شاعری سے بہت بہتر طریقے پر ان علوم سے لیا جا سکتا ہے جو سراسر اخلاقی اور فلسفیانہ ہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی پسند کا فلسفہ منتخب کرلے اور اس کے ذریعہ اپنی اصلاح کرتا رہے، شاعری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ تمام فنون لطیفہ کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ بے بدل ہوتے ہیں۔ جو کام آپ رقص سے لیتے ہیں (چاہے وہ جس قسم کا بھی کام ہو) کوئی اور فن یا علم اسے انجام نہیں دے سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے یہاں بھرت ناٹیم یا کتھک نہیں ہے تو نہ سہی، ہم مصوری یا اقتصادیات سے کام چلا لیں گے۔ شاعری کا افلاطونی نظریہ اگر وسیع کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر شاعری نہ ہو تو کوئی ہرج نہیں، ہم دوسری چیز سے کام چلالیں گے۔ شاعری کے بے بدل نہ ہونے کے ہی تصور کی بنا پر افلاطون کی مثالی ریاست میں شاعروں کا کوئی مقام نہیں۔ اگر فن کے ذریعہ حاصل ہونے والے تجربے کا نتیجہ یہ بتایا جائے کہ اس سے لطف یا لطف اور تعلیم دونوں وجود میں آتے ہیں تو بھی یہی سوال برقرار رہتا ہے کہ فن کے تجربے کا نتیجہ اگر لطف ہے تو کیا وہ لطف کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتا؟ ارسطو نے اس کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا کہ شاعری کے ذریعہ جو لطف حاصل ہوتا ہے وہ اپنی طرح کا اور شاعری سے مخصوص ہوتا ہے۔ ارسطو اس کی تفصیل میں نہیں گیا لیکن اس نے بعض مثالوں سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعد کے نقادوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی سعی بھی نہیں کی لیکن اس بات کا اضافہ کیا کہ شاعری جذبات کو متحرک کرتی ہے اور اس طرح ایک مخصوص قسم کا لطف اس کی میراث ہے۔ بعض جدید نقادوں نے پھر یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ لطف یا جذباتی ہیجان کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتا؟ ظاہر ہے کہ ہو سکتا ہے، پھر شاعری میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں؟ آپ نے ملاحظہ کیا کہ فن پارے سے دوچار ہونے کے بعد جو نتیجہ ہم پر مرتب ہوتا ہے، اگر اس کو اہم قرار دیا جائے تو فن کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس نتیجے کی تعریف یا تعیین ہم کچھ بھی کریں، لیکن اگر ہم نے اس اصول کو تسلیم کیا تو خود فن پارے کا تجربہ نہیں، بلکہ اس تجربے کا نتیجہ اہم ہے تو علی الآخر ہم فن پارے کو نظرانداز کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پھر بھی بعض نقادوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فن پارہ چونکہ ایک تہذیب اور اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہر فن پارے میں فنکار کے Ethos کا لازمی اظہار ہوتا ہے، اس لیے فن پارے کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے ہو سکتا ہے کہ اس کو تہذیب کے اصل الاصول کا اظہار بتایا جائے۔ ہمارے یہاں محمد حسن عسکری قیام پاکستان کے بعد اسی خیال کے قائل ہو گئے تھے۔ عسکری صاحب مارکسی تنقیدی نظریات کے سخت مخالف اور ننگی تصویروں کے رسالے کو ان پر ترجیح دیتے تھے لیکن اپنی غیرمعمولی ذہانت اور علمیت کے باوجود وہ اس بات کو نظرانداز کر گئے کہ فن کار کے ظاہر یا مضمر غیرادبی ارادے (Intent) کو مرجح کرنا بھی ایک طرح کا مارکسی رویہ ہے کیونکہ افلاطون اور مارکسی نقاد دونوں ہی اس بات پر مصر ہیں کہ فن پارہ بعض ایسے اثرات پیدا کرتا ہے جو غیرادبی ہیں۔ یہ بات صحیح ہو یا غلط، لیکن اس نظریہ کی بنیاد پر استوار کی ہوئی تنقیدی عمارت فن پارے کے اثرات کے مطالعے میں اس طرح گم ہو جاتی ہے کہ خود فن پارے کو فراموش کر دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ فن میں تہذیب کے اصل الاصول کا اظہار ہوتا ہے (اور افلاطونی نقاد کو شاید اس اظہار کا مطالعہ کرکے لطف بھی آتا ہو) لیکن کیا ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تہذیب کے اصل الاصول کا مطالعہ کرنے کے لیے شعر کا مطالعہ کیے بغیر چارہ نہیں؟ اس بات کو نہ عسکری صاحب ثابت کر سکے اور نہ ان کا ہم نوا (اگرچہ بعض باتوں میں ان سے بالکل مختلف) لائنل ٹرلنگ (Lionel Trilling) ثابت کر سکا۔ ٹرلنگ کچھ چیں بہ جبیں، کچھ افسردہ ہوکر کہتا ہے، ’’کوئی بیس سال ہوئے یہ بات دریافت کی گئی کہ ادبی تحریر الفاظ کا ڈھانچا ہوتی ہے۔ اس بات کو معلوم کر لینا کوئی بہت زیادہ تعجب انگیز نہیں معلوم ہوتا، سوائے اس کے کہ اس میں ایک بحثیلےپن کا رجحان ہے اور وہ یہ کہ ہم شاعر کی سماجی اور ذاتی نیت کو جو اہمیت دیتے ہیں اس میں تخفیف کریں، (یعنی اس بات کی اہمیت کم کریں کہ) شاعر نظم کے باہر لیکن اس کے نتیجے میں کسی چیز کے واقع ہونے کا خواہاں ہے۔۔۔ (میری نظر میں تو) یہ بات خود مصنفوں کے اصل مزاج ومقتضا کے خلاف جاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ٹھیک ہے، انھوں نے الفاظ کے ڈھانچے ضرور بنائے ہوں گے لیکن یہ ڈھانچے اہرام یا فتح کی محرابیں نہیں تھے۔ یہ بات صاف تھی کہ وہ اس لیے نہیں بنائے گئے تھے کہ وہ بالکل صامت اور یادگاری رہیں بلکہ اس لیے کہ وہ متحرک اور جارحانہ ہوں۔‘‘اس کے بعد ٹرلنگ کہتا ہے کہ میرا اپنا رجحان یہ رہا ہے کہ ادبی صورت حال کو تہذیبی صورت حال سمجھوں اور تہذیبی صورت حال کو اخلاقی معاملات پر عظیم جنگیں سمجھوں۔ اخلاقی معاملات کو کسی نہ کسی طرح خود بخود انتخاب کیے ہوئے ایسے پیکروں سے منسلک سمجھوں جن کا تعلق ذاتی وجود سے ہے اور ذاتی وجود سے متعلق پیکروں کو کسی نہ کسی طرح ادبی اسلوب سے پیوستہ سمجھوں۔ اسی طرح ٹرلنگ گھوم پھر کر فن پارے کی اصل حیثیت پر آ جاتا ہے۔ لیکن تہذیبی صورت حال کو ادب یعنی فن کا مرادف سمجھنے کی وجہ سے اس نے فن کی لازمیت کو مجروح کر دیا۔ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ تنقیدی نظریات میں اگر تھوڑی بہت لازمیت ہوگی تو فن کے حوالے سے ہوگی اور اگر فن میں کوئی لازمیت ہوگی تو اس تجربے کے حوالے سے ہوگی جس سے فن ہمیں دوچار کرتا ہے۔ جہاں بات تہذیبی صورت حال اور اخلاقی معاملات پر جنگ وجدل کی ہوئی، فن کی لازمیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تہذیبی صورت حال کے ساتھ ساتھ فن کی شکل ہی نہیں اس کی روح بھی بدلتی رہتی ہے اور اگر فن کی روح بدلتی رہتی ہے تو اس کی روشنی میں کسی قسم کے پائدار تنقیدی نظریات کا قیام بھی نہیں ہو سکتا۔ تنقیدی نظریات کا تفاعل یہ ہے کہ وہ فن پارہ اور غیرفن پارہ میں تفریق وتمیز کرتے ہیں اور ان کے سہارے ہم فن پاروں کی وضاحت اور تعیین مراتب بھی کر سکتے ہیں۔ اگر تنقیدی نظریات سے یہ کام سر انجام نہ ہوتے تو ان کی ضرورت ہی نہ تھی۔ لیکن ٹرلنگ کے اصول کی رو سے تنقیدی نظریات اولاً اس لیے اہم ہیں کہ ان کے ذریعہ ادب میں تہذیبی اور اخلاقی صورت حال کے اظہار کی پرکھ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام نظریاتی تنقید کے مقابلے میں عمرانیات اور اخلاقیات کے ذریعہ بہت زیادہ بہتر طور پر انجام پا سکتا ہے۔ فن پارے کو تہذیب کا اظہار قرار دینا اور چیز ہے اور فن پارے کی قیمت تہذیبی اظہار کی روشنی میں متعین کرنا اور چیز۔ تہذیبی اظہار اور اخلاقی مسائل سے دست وگریباں ہونے کی شرط لگانے کی وجہ سے فن میں ایسے بہت سے عوامل درآتے ہیں جن کا تعلق فن سے اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا تہذیب اور اخلاق کا ہوتا ہے۔ افلاطون کی مثال سامنے کی ہیں۔ نظریاتی تنقید کا ایک بڑا حصہ اسی لیے عارضی، محدود اور غیرفلسفیانہ ہے کہ اس کا تعلق فن پارے کی اصل لازمیت سے نہیں ہے۔ سیاسی نظریات ان مواقع پر بڑی آسانی سے در آتے ہیں جب فن سے حاصل ہونے والے تجربے کو فی نفسہ اہم نہ سمجھا جائے بلکہ اس تجربے کے ذریعے مرتب ہونے والے نتیجے کو اہم قرار دیا جائے۔ جہاں جہاں ایسا ہوا ہے وہاں فن سیاست یا مصلحت کا آلۂ کار بن گیا ہے اور تنقیدی نظریات کی سچائی مشتبہ ہو گئی ہے۔  صحت مند اور غیرصحت مند جیسی اصطلاحات (جو آخری تجزیے میں ’’کار آمد‘‘ اور’’غیرکارآمد‘‘ سے زیادہ معنی نہیں رکھتیں) بس ایسے ہی حالات میں وجود میں آتی ہیں جب فن کو لازم اور قائم بالذات کی جگہ وقتی، ہنگامی اور اس کے اقدار کو دوسرے سماجی علوم مثلاً اقتصادیات کی طرح تغیر پذیر سمجھا گیا ہے۔ قدیم یونانی ڈرامے کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دشمن کے ساتھ مراعات کرنا یا بدلہ لینے کے لیے ہر وقت تیار نہ رہنا یونانیوں کے نزدیک قبیح تھا، لہٰذا افلاطون کے ہم نواؤں کو ایسے تمام ڈرامے مسترد اور مطعون کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی جن میں ان خیالات کا انکار تھا۔ خیر یونان میں تو تب بھی ایک طرح کا جمہوری نظام تھا جس میں فن کار بڑی حدتک آزاد تھا۔ جہاں افلاطونی فلسفے کی کارفرمائی پوری طرح ہوتی ہے، وہاں فن کار بڑی حد تک آزاد نہیں رہ جاتا اور لامحالہ اس سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیز لکھے جن سے وہ نتائج متوقع ہوں جن کی حکمراں طبقہ کو ضرورت ہو۔ ادب پر سیاست کی سینہ زوری کے نتیجے میں اکثر الم ناک اور بعض اوقات مضحکہ خیز واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کی مثال ناول نگار الیا اہرن برگ (Ilya Ehrenberg) کی خود نوشت سوانح عمری میں ملتی ہے۔ اپنے ایک ناول نگار دوست فادے ایف (Fadeyev) کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے، ’’ایک دفعہ ہوائی جہاز میں میری اس سے بات ہوئی جو مجھے یاد ہے۔ فادے ایف نے کہاکہ وہ ادب بالکل ختم ہو چکا تھا اور اپنے نامکمل ناول ’’آہنی دھاتوں کاعلم‘‘ کے حشر کا ذکر کرنے لگا۔ اس نے کہا، ’’۱۹۵۱ء میں مالنکف (Malenkov) نے مجھے بلاکر کہا کہ فلزیات (Metallurgy) میں ایک نئی ایجاد عمل میں آئی ہے جو اس تمام علم میں انقلاب پیدا کر دےگی۔ یہ ایک عظیم الشان دریافت ہے۔ اگر تم اس دریافت کو تفصیل سے بیان کر سکو تو پارٹی (کمیونسٹ پارٹی) کی بڑی خدمت انجام دوگے۔‘‘ ساتھ ہی ساتھ مالنکف نے یہ بھی بتایا کہ (اس سلسلے میں) بعض تخریب پسند ماہرین ارضیات کی ریشہ دوانیاں بھی بے نقاب ہوئی تھیں۔ فادے ایف نے کہا کہ میں نے فوراً کام شروع کر دیا، میں نے یورال (Ural) کے کئی سفر کیے۔ لکھنے میں کسی عجلت سے نہ کام لیا۔ میں چند سو صفحات لکھ چکا تھا اور اب اپنے کام کو حقیقی ناول کی شکل میں دیکھنے لگا تھا، یعنی وہ واحد شے جس کے لیے میں خود کو جواب دہ محسوس کر سکتا تھا۔ پھر اچانک معلوم ہوا کہ وہ عظیم الشان ایجاد محض ایک چار سو بیس تھی، اس کی وجہ سے ملک کو سیکڑوں ملین روبل کا نقصان ہوا تھا اور وہ ماہرین ارضیات جن کو تخریب پسند بتاکر بےنقاب کیا گیا تھا، بے چارے دراصل جھوٹی الزام تراشی کے شکار تھے۔ ان کی بحالی ہو گئی اور میرا ناول ضائع ہو گیا۔‘‘جب اہرن برگ نے فادے ایف کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ ناول میں ذرا سی تبدیلی کر دو، کام چل جائےگا، کیونکہ تحریر بہرحال شاندار ہے، تو فادے ایف نے چیخ کر کہا، ’’یہ تم کیا بک رہے ہو۔ میرا ناول لوگوں کے بارے میں نہیں حقائق کے بارے میں تھا۔‘‘ یعنی جب وہ ’’حقائق‘‘ ہی جھوٹے ثابت ہوئے تو ناول کہاں رہ گیا۔ اس واقعے کو نقل کرکے یہ دکھانا مقصود نہیں کہ صرف روس میں ایسا ہوتا ہے یا ہوا ہے۔ جہاں بھی اس نظریے کو بروے کارلایا جائےگا کہ فن کی قیمت اس نتیجے میں ہے جو اس کے ذریعے انسانی شخصیت پر مرتب ہوتا ہے، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ جوائس کی ’’یولی سیز‘‘ (Ulysses) پر امریکہ میں برسوں قدغن رہی اور بودلیئر کی چھ نظمیں فرانس میں ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۹ء تک فحش، لہٰذا قابل سزا رہیں۔ یہ سب بھی اسی افلاطونی اصول پر عمل درآمد کا نتیجہ تھاکہ انسانوں کے ذہن میں اثرپذیری کی صفت ہوتی ہے۔ اس لیے جو ذہن زیادہ اثرپذیر (یعنی کم طاقت ور ہو اور قانون سازوں کی نظر میں ان کے علاوہ سب کے ذہن کم طاقتور ہوتے ہیں) اس کو ’’نقصان دہ‘‘ اثرات سے محفوظ رکھنا حکومت کا فرض ہے۔ اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر فن پارے میں کوئی لازمیت ہے تو وہ اس تجربے کے نتیجے میں پنہاں نہیں ہے جو فن پارے کے توسط سے انسانی ذہنوں پر مرتب ہوتا ہے، کیونکہ اس نتیجے کو سماجی یا اخلاقی طور پر اچھا یا برا کہا جا سکتا ہے اور چونکہ سماجی اور اخلاقی اچھائی برائی کے معیار زیادہ تر سیاسی ہوتے ہیں، اس لیے ان کے سہارے کسی فن پارے کی خوبی یا ناخوبی کا تعین، بلکہ اس سے پہلے اس کا تعین کہ کوئی تحریر فن پارہ ہے بھی کہ نہیں، نہیں ہو سکتا۔ دوسرا مسئلہ زیادہ تر دلچسپ اور اسی اعتبار سے زیادہ باریک بھی ہے۔ کسی شے کا تفاعل اس شے کا حصہ ہے یا وہ نتیجہ ہے جو اس تفاعل سے پیدا ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر دھوپ کا تفاعل گرمی ہے یا وہ نتائج ہیں جو گرمی کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں؟ اگر کوئی شخص دھوپ کی گرمی سے کسی چیز کو سڑتا ہوا دیکھے تو کیا وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگا کہ دھوپ کا تفاعل اشیا کو سڑاتا ہے؟ کوئی دوسرا شخص دھوپ کے بغیر اشیا کو مرتا ہوا دیکھے تو کیا وہ بھی یہ سمجھنے میں حق بہ جانب نہ ہوگا کہ دھوپ کا تفاعل اشیا کو زندہ رکھتا ہے؟ اب اگر دونوں اپنے اپنے نظریے پر اڑ جائیں اور اس کو منوانے کے لیے خون خرابہ کر بیٹھیں تو کس کی موت حق پر کس کی موت ناحق پر کہلائے گی؟ ٹرلنگ نے توپ کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی شخص اس بات کا اندازہ لگائے بغیر کہ کوئی توپ کتنی ضرب پہنچا سکتی ہے، اس کا بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن توپ کا تفاعل نقصان پہنچانا ہے یا گولہ پھینکنا؟ لازمیت کس بات میں ہے؟ گولہ پھینکنے میں یا ضرب لگانے میں؟ گولہ کہیں بھی گرے، اگر وہ توپ کے منھ سے نکل گیا تو توپ کا تفاعل پورا ہو گیا، ضرب یا نقصان توپ کا تفاعل نہیں بلکہ گولے کا تفاعل ہے۔ اگر گولہ نشانے پر بیٹھتا ہے تو ضرب لگائے گا یا وہ کام کرےگا جس کے لیے اسے توپ سے نکالا گیا ہے۔ اگر گولے سے پیدا شدہ نتیجے کو توپ کا نتیجہ سمجھا جائے تو پھر توپچی کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ توپ کا گولہ تو وہیں اثر کرےگا یا ضرب لگائے گا جہاں توپچی نشانہ بنائے گا۔ توپ کو اس سے غرض نہیں کہ اس کے دہانے سے نکلا ہوا گولہ کہاں جاتاہے اور گولہ نکلتاہے یا پھول برستے ہیں۔ اشیا کے تفاعل کی لازمیت کی شرط یہ ہے کہ وہ تفاعل براہ راست ان اشیا کا ہو اور ان کے اندر ہو۔ دھوپ کا تفاعل گرمی ہے کیونکہ گرمی دھوپ کے اندر ہے، جس طرح توپ کا تفاعل گولہ برسانا ہے کیونکہ گولہ اس کے اندر ہے۔ اگر گولے کے اثر یا گرمی کے اثر کو توپ یا دھوپ کا تفاعل فرض کیا جائے تو لازمیت ختم ہو جائےگی اور طرح طرح کے شرائط (لیکن، چونکہ، بہ شرطے کہ، تا وقتے کہ وغیرہ) عائد کرنے پڑیں۔ لازمیت کی شرط یہ ہے کہ وہ موجود اور ممکن دونوں پر ہمہ وقت عائد ہو سکے۔ یہ بات الگ ہے کہ شاید کوئی چیز، کوئی بیان ایسا نہیں ہے جسے قطعی اور پوری طرح لازم ٹھہرایا جا سکے۔ یعنی لازم کے بھی درجے ہو سکتے ہیں۔ کسی بیان کو لازم ٹھہرانے کے لیے جتنی کم شرطیں عائد کرنی پڑیں وہ بیان اتنا ہی لازم ہوتا ہے، مثلاً یہ تین بیانات، (۱) پانی سو ڈگری سینٹی گریڈ حرارت پر ابلنے لگتا ہے۔ (۲) دھوپ میں گرمی ہوتی ہے۔ (۳) E برابر ہے MC2 کے۔ تینوں میں لازمیت ہے، مگر ایک ہی درجے کی نہیں۔ پانی کو سو ڈگری سینٹی گریڈ حرارت پہنچائی جائے تو وہ ابلنے لگےگا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس وقت فضائی دباؤ ۷۵۰ پونڈ فی مربع انچ سے کم نہ ہو، پانی دو حصہ ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے مرکب ہو۔ اس میں کسی خارجی عنصر کی اتنی ملاوٹ نہ ہو کہ H2O کی ترکیب میں خلل پڑے۔ دوسرے بیان میں لازمیت زیادہ ہے، لیکن بیان خود نامکمل ہے کہ دھوپ میں گرمی کے علاوہ بہت کچھ اور بھی ہوتا ہے، مثلاً روشنی، کیمیائی عناصر، کئی طرح کے رنگ وغیرہ۔ آئن سٹائن کا فارمولا کہ انرجی برابر ہے کسی شے کی Mass اور اس کی رفتار کے مربع کے حاصل ضرب کے، ایک مکمل اور لازمیت سے بھرپور بیان ہے۔ حتی کہ اس کو Mass، رفتار اور انرجی کی تعریف کی بھی حاجت نہیں لیکن اس بیان کی لازمیت Infinity تک نہیں، کیونکہ آئن سٹائن کے دوسرے فارمولے کے اعتبار سے جب کوئی شے روشنی کی رفتار حاصل کر لیتی ہے تو اس کے زمان اور مکان ایک ہو جاتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ اگرچہ مطلق لازم بیان شاید ممکن نہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ ایسا بیان وضع کیا جائے جو حتی الامکان لازم ہو یا اس کا لازم ہونا عامۃ الورود ہو۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ توپ کا وہی تفاعل ہے جو توپ کے گولے کاہے تو بیان کی لازمیت معرض خطر میں پڑ جاتی ہے کیونکہ گولے کا تفاعل مختلف اوقات وحالات میں مختلف ہوتا ہے۔ اگر فن کے ذریعہ حاصل ہونے والے تجربے کی جگہ (یا اس کے ساتھ) اس تجربے کے نتیجے کو بھی فن کا تفاعل فرض کیا جائے تو تنقیدی نظریات صحیح نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ اثر مختلف لوگوں پر مختلف طرح کا ہوگا اور بعض لوگ بعض طرح کے اثر کو غلط یا خراب کہیں گے۔ اس طرح فن پر وہ پابندیاں عائد ہونے لگیں گی جو مقتضائے فن (یعنی اظہار) کو ہی فوت کر دیں گی۔ لہٰذا اگر تنقیدی نظریات میں کسی قسم کی فلسفیانہ سچائی ثابت کرنا ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ نظریات اس تجربے کے حوالے سے ہی مدون کیے جائیں گے جس سے ہم فن پارے کے ذریعے دوچار ہوتے ہیں۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تجربہ بھی تو مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس نظریے پر وہ اعتراض کیوں نہ وارد ہو جو تجربے کے نتیجے کو اہم سمجھنے والے نظریے پر وارد کیا گیا تھا کہ یہ نتیجہ مختلف لوگوں پر مختلف نوع کا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ فن پارے کا مطالعہ کرنے والاکسی قسم کے تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ تجربہ کس قسم کا ہے، ہمیں اس سے فی الحال غرض نہیں۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر فن پارہ ہمیں ایک تجربے سے روشناس کراتا ہے۔ چونکہ یہ شرط تمام فن پاروں میں مشترک ہے، اس لیے فن پارے کی تعیین اور تعیین قدر دونوں اسی تجربے کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس تجربے کو کس طرح بیان کیا جائے یا گرفت میں لایا جائے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ بیش از بیش تعداد میں فن پاروں کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے کہ وہ ہمیں کس طرح اور کس طرح کے تحربے سے دوچار کرتے ہیں۔ لیکن فن پاروں کی پہچان کیسے ہو؟ فن پارے کی تعریف تو یہی بتائی جاتی ہے کہ اس کا مطالعہ کسی نہ کسی طرح کے تجربے سے گذارتا ہے۔ جب اس تجربے کی ہی کوئی تعریف نہیں تو فن پارے کی پہچان کہاں سے ہوگی؟ فرض کیجئے کہ یوں کہا جائے کہ بیش از بیش تعداد میں تحریریں پڑھ کر تجزیہ کیا جائے کہ ان کو پڑھ کر ہم کن مختلف تجربات سے دوچار ہوئے۔ اس سے یہ فائدہ تو ہوگا کہ مختلف تحریروں کے ذریعہ روشناس شدہ مختلف تجربات کو ہم بیان کردیں گے لیکن یہ پھر بھی نہ کر پائیں گے کہ ان میں کون سی تحریریں فن پارے ہیں، کون سی نہیں۔ فرض کیجئے اس مسئلے کو طے کرنے کے لیے ہم فن کار کے Motivation یعنی ترغیب عمل کا سہارا لیں یعنی یہ غور کریں کہ اگر کوئی شخص ارادۃً یا مجبوراً یا اتفاقاً کوئی فن پارہ بناتا ہے تو اس کو کیا چیز Motivate کرتی ہے، یعنی فن پارہ بنانے کے کام کی ترغیب دیتی ہے۔ اگر اس کو شہرت اور نام ونمود کی بھوک کہا جائے تو مشکل یہ ہوگی کہ ہزاروں آدمی لاکھوں کام شہرت اور نام ونمود کی خاطر کرتے ہیں لیکن وہ فن پارہ تخلیق نہیں کرتے۔ اگر اسے خوب صورت چیز بنانے کا شوق کہا جائے تو مشکل یہ ہوگی کہ خوب صورتی محض فن پارے کا وصف نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں (مثلاً ریاضی کا کوئی لطیف مسئلہ، شطرنج کی کوئی باریک چال) خوب صورت ہوتی ہیں لیکن ان کا خلاق فنکار نہیں کہلاتا۔  اگر یہ کہا جائے کہ فن کار کا Motivation دراصل اظہار ذات کی تمنا یا کوشش ہے تو مصیبت یہ آ پڑےگی کہ کوئی شخص کسی قسم کے اظہار کو بھی اظہار ذات کہہ کر خود کو فن کار منوانے پر مصر ہوگا، یا ہم جس تحریر کو بھی پسند کریں گے (چاہے وہ ملٹن فریڈ مین کی تباہ کن اقتصادیات کیوں نہ ہو) اسے اظہار ذات کے کہنے اور کہلانے پر اڑ جائیں گے (اور اقتصادیات، عمرانیات سے متعلق تحریریں بعض اوقات اظہار ذات کا نتیجہ ثابت بھی کی جا سکتی ہیں) شہرت کی بھوک یا خوب صورت چیز بنانے کا شوق یا اظہار ذات کی تمنا، ان کا کھیل تو فن پاروں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ کسی فن پارے یا تمام فن پاروں کا وصف لازم نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ارادہ (Intention)، ضرورت Motivation)، مراد (Effect) ان میں سے کسی چیز کو فن پارے کی پہچان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن ہم نے یہ کیوں فرض کر لیا کہ تمام تحریریں ہمیں کسی نہ کسی طرح کے تجربے سے روشناس کرتی ہی ہوں گی؟ جب ہم تحریروں کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض تحریریں واقعی ہمیں ایک تجربے سے گذارتی ہیں اور بعض میں یہ کیفیت بالکل نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا کہ تمام تحریریں ہمیں کسی قسم کا تجربہ (Experience) عطا کرتی ہیں، اس لیے ہی غلط نہیں ہے کہ واقعی دنیا میں ایسا نہیں ہے، بلکہ منطقی طور پر بھی غلط ہے کیونکہ اگر سب تحریریں ہمیں تجربہ ہی عطا کرتیں تو ہمارے علم میں اضافہ کہاں سے ہوتا؟ Experience ہمارے علم میں اضافہ نہیں کرتا، Experiment اور مشاہدہ ضرور ہمارے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ تجربہ بہ معنی Experience ہمارے وجود کے ابعاد میں اضافہ کرکے ہمیں Experiment کے لیے تیار کرے لیکن خود Experience نہ علم ہوتاہے نہ علم میں اضافہ کرتا ہے، مثلاً فرض کیجئے میں نے پہلی بار پہاڑ دیکھا اور مجھ پر ہیبت طاری ہو گئی۔ اس سے مجھے یہ تو معلوم ہو گیا کہ پہلی بار پہاڑ دیکھنے سے مجھ پر ہیبت طاری ہوئی اور اگر ہیبت پہلی بار طاری ہوئی تو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ میرے تعلق سے ہیبت کی (یا کم سے کم پہاڑ کو دیکھ کر پیدا ہونے والی ہیبت کی) نوعیت کیا ہے۔ لیکن ان باتوں سے میرے وجود کے ابعاد میں اضافہ ہوا، علم میں نہیں۔  ممکن ہے بار بار پہاڑ کو دیکھنے سے میری ہیبت جاتی رہے یا ہر بار مختلف قسم کی ہیبت کاتجربہ ہو۔ علم میں اضافہ تو تب ہوتا جب میں تجربہ یا مشاہدہ کرکے یہ معلوم کرتا کہ تمام انسانوں (یا کم سے کم خاص طرح کے انسانوں) کے لیے وہ (مخصوص) پہاڑ ہیبت انگیر ہے، ورنہ میں عجائبات عالم کے مختلف نمونوں کا مشاہدہ کرکے اپنی شخصیت کے ابعاد کو پیچیدہ تر تو بنا سکتا ہوں لیکن علم نہیں حاصل کر سکتا، کیونکہ علم کی شرط ایک طرح کی معروضیت، عمومیت اور کارآمدگی ہے۔ کارآمدگی سے میری مراد یہ ہے کہ یا تو خود اس علم کو کسی عملی مصرف میں لایا جائے یا وہ علم کسی عملی مصرف میں آنے والی چیز یا عمل کا نتیجہ ہو۔ مثال کے طور پر جمع تفریق ایک علم ہے جس سے ہم ہزاروں کام لیتے ہیں یا اور نیچے آئیے، گننا ایک علم ہے جس کے بغیر دنیا کا کام نہیں چل سکتا، اسی علم کے نتیجے میں جارگ کینٹر (Georg Cantor) نے لامتناہی گنتیوں کے بارے میں اپنے چونکا دینے والے نظریات پیش کیے ہیں، مثلاً یہ کہ وہ گنتیاں جو پوری پوری تقسیم ہو جاتی ہیں، لامتناہی ہیں اور وہ گنتیاں بھی لامتناہی ہیں جو پوری پوری تقسیم ہونے والی اور نہ تقسیم ہونے والی گنتیوں کا حاصل جمع ہیں وغیرہ۔ اس علم کی کوئی کارآمدگی بظاہر نہیں، لیکن یہ خود ایک کارآمد علم یعنی گننے سے برآمد ہوا ہے۔ یہ بات معلوم کرنے سے کہ اعداد لامتناہی ہیں، میری شخصیت کے ابعاد میں کوئی تبدیلی یا اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس سے میری انسانی حیثیت یعنی انسان پن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ظاہر ہے کہ وہ قبائلی بھی انسان ہے جو صرف دس تک گنتی گن سکتا ہے اور دس سے بڑاہر ہندسہ اس کے لیے لامتناہی ہے اور وہ لوگ بھی انسان تھے (یورپ میں قرون وسطیٰ تک، یعنی ہومر، سافکلیس Sophocles اور افلاطون سے لے کر مسلمانوں کی آمد سے پہلے تک) جو صفر کے تصورات سے ناواقف تھے۔ صفر اور اس طرح کی بہت سی علمی اشیا کی حد تک افلاطون اور ارسطو کا علم ہمارے یہاں کے غبی ترین پروفیسر (بلکہ غبی ترین بچے) کے علم سے کم تھا، لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسان پن (انسانیت نہیں) زیادہ تھا۔ لہٰذا سب تحریریں ہمیں تجربے سے دوچار نہیں کرتیں۔ بعض تحریریں علم عطا کرتی ہیں، ان کے نام ہیں، سب ناموں کو سمیٹ کر انھیں سائنس کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح جو چیزیں یا تحریریں علم کے بجائے تجربہ (Experience) عطا کرتی ہیں، ان کے مختلف نام ہیں، ادب، موسیقی، مصوری وغیرہ۔ (ارسطو کے زمانے میں لفظ ’’ادب‘‘ کا وجود نہ تھا) سب ناموں کو سمیٹ کر انھیں فن اور جس چیز کے ذریعہ فن کا اظہار ہو، اسے فن پارہ کہا جائےگا۔ یہاں یہ گمان نہ گذرنا چاہیے کہ میں رچرڈس (I. A. Richards) کے اس نظریے کے سیاق میں بات کر رہا ہوں جس کی رو سے زبان کا استعمال یا تو حوالہ جاتی (Refrential) یعنی سائنسی یا جذبات انگیز (Emotive) یعنی تخلیقی ہوتا ہے۔ میں تمام فن میں مضمر تجربے کی بات کر رہا ہوں۔ ممکن ہے تجربے کو ہم تک پہنچانے یا ہم میں اس بات کا احساس دلانے کے لیے کہ ہم کسی تجربے سے دوچار ہو رہے ہیں، جذبات انگیز زبان استعمال ہوتی ہو لیکن بنیادی بات یہ کہ فن کے ذریعہ معلومات یاعلم حاصل نہیں ہوتا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ پھر یہ کیوں کہا گیا ہے (اور شاید میں نے بھی کہا ہے) کہ شعر کے ذریعہ ایک مخصوص طرح کا علم حاصل ہوتا ہے؟ لیکن دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شعر کے ذریعہ وہ علم نہیں حاصل ہوتا جو سائنس کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور کولرج کا مشہور قول میں خود جگہ جگہ دہرا چکا ہوں کہ شعر کی ضد نثر نہیں بلکہ سائنس ہے۔ اس بات کی تفصیل کو فی الحال یہاں ملتوی کرتے ہوئے میں اپنے پرانے مسئلے کی طرف واپس آتا ہوں کہ فن میں جو چیز لازمی حیثیت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح کے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں، چونکہ بہت سی تحریروں کے ذریعہ ہمیں کسی قسم کا تجربہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے فن پارہ اور غیرفن پارہ میں فرق کرنا مشکل نہیں۔ یعنی یہ سوال طے ہو گیا کہ فن پارہ (مثلاً شعر) کیاہوتا ہے، لہٰذا نظریاتی تنقید کا سب سے پہلا کام یہ ٹھہرا کہ وہ فن پارے کی پہچان فن پارے کے حوالے سے متعین کر سکتی ہے اور چونکہ فن پارے میں لازمیت ہوتی ہے، اس لیے اس نظریاتی تنقید میں بھی لازمیت اس حد تک ہوگی جس حد تک فن پاروں میں ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا نتائج کی دریافت بڑی حد تک جدید ادبی تنقید کی دین ہے، اور خاص کر اس جدید تنقید کی جس کا آغاز کم وبیش کولرج سے ہوتا ہے۔ جدید تنقید نے ہی اس بات کو واضح کیا کہ فن پارے کی جانچ اگر ان معیاروں سے کی جائےگی جن معیاروں سے غیر فن پارہ جانچا جاتا ہے تو نتائج نادرست بلکہ گمراہ کن ہوں گے۔ نظریاتی تنقید کا اگر کوئی جواز ہے تو یہی ہے کہ وہ فن پارے کے اصل وجود سے بحث کرتی ہے۔ اس بیان پر یہ اعتراض درست نہیں کہ اگر ایسا ہے تو بہت سارے تنقیدی نظریات کیوں ہیں؟ کیونکہ تمام نظریات کو اگر یکجا کیا جائے تو وہ صرف دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک تو وہ نظریات جو افلاطونی ہیں، یعنی جو کسی نہ کسی نہج سے فن کے ذریعہ لیکن فن کے باہر واقع ہونے والے معاملات کو اہمیت دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو غیرافلاطونی (یا مختصراً کہیے تو ارسطوئی) ہیں یعنی جو خود فن پارے کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان بڑے گروہوں میں آپسی اختلافات ہیں لیکن ان کی نوعیت تفصیل کے اختلاف سے زیادہ نہیں۔ بعض ایسے نظریات بھی ہیں جو تھوڑا بہت افلاطون اور تھوڑا بہت غیرافلاطون کا مرکب ہیں، لیکن ان میں بھی افلاطونی یا غیرافلاطونی رجحان واضح ہے۔ بعض چیزوں کی حد تک تمام نظریاتی تنقید ایک مشترک تصویر پیش کرتی ہے، مثلاً یہ کہ تنقید کولرج کے الفاظ میں ’’غور وفکر اور اندازے کا ایک آلہ ہے۔‘‘ اور اس غور وفکر کی پشت پناہی کسی نظریے سے نہ ہو یا اس کے ذریعہ کوئی نظریہ وجود میں نہ آئے تو تنقید محض ایک دلچسپ یا خشک یا غیرمرتب اظہار خیال ہے۔ حالی کے بعد ہمارے یہاں جو تنقید لکھی گئی اس میں نظریے کی اہمیت کا احساس کبھی غائب تو کبھی موجود رہا۔ اسی وجہ سے تنقیدی نظریات کے چھینٹے تو پڑ گئے لیکن مشرح اور منضبط نظریہ سازی نہ ہوسکی۔ صرف ترقی پسندوں نے اس سلسلے میں کاوش کی لیکن ان کے اپنے تضادات اس قدر تھے کہ کوئی سیرحاصل نقشہ نہ بن سکا۔ ترقی پسند نقادوں کی کتابوں کے عنوانات اس سلسلے میں ان کے فکری تضادات اور بے یقینی یا غیرقطعیت کی دل چسپ دلیلیں ہیں۔ ان کو عمومی حیثیت سے تین فہرستوں میں رکھا جا سکتا ہے، (۱) وہ عنوانات جن میں ادب کے ساتھ زندگی یا ادب کے ’’کارآمد‘‘ پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً، ادب اور انقلاب (اختر حسین رائے پوری)، ادب اور زندگی (مجنوں گورکھپوری)، نقد حیات (ممتاز حسین)، افادی ادب (اختر انصاری)، ادب اور سماج (احتشام حسین)، ذوق ادب اور شعور۔ (احتشام حسین) (۲) وہ عنوان جس میں تنقید کو ایک برسبیل تذکرہ، سرسری یعنی casual لیکن باخبر (well۔ informed) اظہار خیال سمجھنے کی طرف اشارہ ہے مثلاً، تنقیدی حاشیے (مجنوں گورکھپوری)، نکات مجنوں (مجنوں گورکھپوری)، پردیسی کے خطوط (مجنوں گورکھپوری)، روشنائی (سجاد ظہیر)، تنقیدی جائزے (احتشام حسین)، ایک ادبی ڈائری (اختر انصاری)، تنقیدی زاویے (عبادت بریلوی)، ادبی مسائل۔ (ممتاز حسین) (۳) وہ عنوانات جن میں نظریاتی شعور کے بجائے بعض مخصوص نوعیت کے ادب کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کی طرف اشارہ ملتا ہے، مثلاً، نئے ادبی رجحانات (اعجاز حسین)، اردو ادب کے رجحانات پر ایک نظر (عبدالعلیم)، ترقی پسند ادب (سردار جعفری)، ترقی پسند ادب (عزیز احمد)، نئی قدریں (ممتاز حسین)، پیغمبران سخن (سردار جعفری) عبادت بریلوی کے عنوان ’’تنقیدی زاویے‘‘ کے سامنے خلیل الرحمٰن اعظمی کا عنوان ’’زاویۂ نگاہ‘‘، احتشام صاحب کے ’’ادب اور سماج‘‘ کے سامنے وزیر آغا کا عنوان’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ اور اعجاز حسین کے ’’نئے ادبی رجحانات‘‘ کے سامنے جیلانی کامران کا عنوان ’’نئی نظم کے تقاضے‘‘ رکھئے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ وہ معاصر نقاد جن کا طریق کار یاطریق فکر ترقی پسندوں سے متاثر ہے، ان کے یہاں ویسے ہی عنوانات بھی ملتے ہیں، مثلاً، سلیم احمد کا عنوان ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ صاف ظاہر کرتا ہے کہ نقاد کو نظریات سے نہیں بلکہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ نئی نظم میں پورے آدمی یعنی بالغ باشعور آدمی کا اظہار ہوا ہے کہ نہیں۔ سلیم احمد مارکسی نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے وہ بھی ترقی پسند ہیں کہ انھیں راشد کی نظم اپنے مرکزی خیال یا موضوع کی وجہ سے بری لگتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں راشد کا جنسی رویہ خام یعنی غیرصحت مند تھا۔ نظیر صدیقی کے عنوان ’’تاثرات وتعصبات‘‘ سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ تنقید ان کی نظر میں محض تاثرات اور ذہنی تحفظات کا اظہار ہے، اس کو نظریاتی فکر کی ضرورت نہیں۔ نظریاتی تنقید سے عدم توجہی کا بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عملی تنقید بھی تضادات کا شکار ہو گئی۔ احتشام صاحب نے ’’تنقیدی جائزے‘‘ کے دیباچے میں لکھا، ’’اعلیٰ تنقید کی پہچان یہی ہے کہ اس سے زندگی کے حسن اور توانائی کو سمجھنے اور اسے ابھارنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح عوام کا رشتہ، عوامی جد وجہد کرنے والی طاقتوں سے مضبوط ہوتا ہے۔‘‘اس طرح عملی تنقید انفرادی فن پاروں کے بارے میں ایسے بیانات کا نام نہ رہ گئی جو قابل تصدیق ہوں، بلکہ انفرادی فن پاروں کے بارے میں بیانات ہی عملی تنقید سے خارج ہو گئے۔ ان کی جگہ ایسے بیانات نے لے لی (چاہے وہ فن پارے سے برآمد ہوں یا نہ ہوں) جن کے ذریعہ ’’زندگی کا حسن اور توانائی‘‘ سمجھ میں آئے اور ’’ابھرے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایسے بیانات تو کیا خاک مرتب ہوتے، انفرادی فن پاروں اور فن کاروں کے بارے میں ایسے بیانات ضرور وضع کیے گئے جن سے یہ ثابت ہوتا کہ یہ فنکار زندگی کو حسین، توانا، پرامید اور انقلابی کش مکش سے بھرپور سمجھتے تھے۔ سردار جعفری کی قلابازیاں ’’پیغمبران سخن‘‘ میں اور رسل وخورشید الاسلام کے زمین آسمان کے قلابے Three Mughal Poets میں اس بات کے شاہد ہیں۔ احتشام صاحب اور ان کے مؤیدین اس بات کو وضاحت سے نہ دیکھ پائے کہ فن پارہ ہمیں خیالات سے نہیں بلکہ تجربے سے دوچار کرتا ہے۔ لیکن اس سے متعلق دوسرے سوال پر انھوں نے جستہ جستہ اظہار کیا ہے یعنی یہ کہ فن پارہ کے ذریعہ ہم جس تجربے سے گذرتے ہیں، کیا فن پارہ اس تجربے کا بلا واسطہ اظہار کرتا ہے یا یہ اظہار کسی وسیلے کا پابند ہوتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا فن پارہ خود ایک تجربہ ہے یا وہ ایسے وسائل کو برتتا ہے جن کے ذریعہ اس میں مضمر تجربہ ہم تک پہنچ سکے؟ پہلی صورت میں ساری ذمہ داری فن پارے کو پڑھنے والے کی ہوتی ہے۔ اگر وہ تجربے کو حاصل نہ کر سکا تو یہ اس کا قصور ہے۔ دوسری صورت میں ساری ذمہ داری فن پارے یعنی اس کے خالق کی ہو جاتی ہے۔ اگر پڑھنے والا اس تجربے کو حاصل نہ کر سکا تو سارا قصور فن پارے کا ہے۔ سرریلسٹ ادیب، کیوبسٹ (Cubist) اور تجریدی مصور اسی خیال کے حامی تھے کہ فن پارے میں مضمر تجربے تک آپ نہ پہنچ پائیں تو قصور آپ کاہے۔ سر ریلسٹ اور کیوبسٹ دونوں انتہائی حقیقت پسندی کا دعویٰ کرتے تھے، لہٰذا اگر ان کے فن پارہ میں بیان کردہ حقیقت تک آپ کی رسائی نہ ہو تو یہ آپ کی نارسائی ہے۔ فن میں ابہام کا نظریہ بھی اسی تصور سے پیوستہ ہے۔ دوسرے خیال کے حامی وہ لوگ تھے جو روایتی حقیقت پرست تھے۔ ہمارے ترقی پسند ان کے ہی وارث ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ فن پارے کو بالکل واضح اور غیرپیچیدہ ہونا چاہیے، یعنی خود فن پارے میں کوئی داخلی زندگی اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی مثلاً غروب آفتاب کے منظر میں ہوتی ہے، بلکہ یہ زندگی فن پارے کی سطح پر ہوتی ہے، اس معنی میں کہ فن پارہ اپنے سارے وجود کو بعض وسائل میں یا ان کے ذریعہ متشکل کرتا ہے۔ اگر آپ فن پارے کے وجود تک نہ پہنچ پائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل ناقص ہیں۔ دونوں نظریات انتہا پسندانہ ہیں۔ آلبیئر گلیز (Albert Gleizes) اور ژیں متزینگر (Jean Metzinger) نے اپنے مشہور مضمون ’کیوبزم‘ (۱۹۱۲ء) میں لکھا، ’’تصویر، اپنے ہونے کی وجہ خود اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ اصلاً آزاد، بالضرور مکمل ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ذہن کو فوراً مطمئن کر دے۔ اس کے برعکس، یہ ذہن کو آہستہ آہستہ ان تخئیلی گہرائیوں تک لے جاتی ہے جہاں تنظیم کے چراغ روشن ہیں۔ یہ کسی مخصوص یا مقررہ ترتیب اشیا سے میل نہیں کھاتی۔ یہ اشیا کی ملکیت سے بلکہ کائنات سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہ ایک نامیاتی وجود ہے۔۔۔ ہم سے باہر کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ محسوسات اور ذہن کی انفرادی سمت کے ایک ساتھ واقع ہونے (پر جو صورت حال پیدا ہوتی ہے اس) کے علاوہ کوئی چیز حقیقی نہیں۔ حاشا ہم اشیا کے وجود سے انکار نہیں کرتے جو ہمارے حواس پر اثرانداز ہوتی ہیں، لیکن چونکہ ہم باشعور (Reasonable) ہیں اس لیے ہم انھیں پیکروں کے بارے میں تیقن رکھ سکتے ہیں جو وہ اشیا ہمارے ذہن میں کھلاتی ہیں۔۔۔ ہم (اشیاکی) کی اصلیت کے متلاشی ہیں، لیکن ہم اسے اپنی شخصیتوں میں نہ کہ ریاضی دانوں اور فلسفیوں کے ذریعہ محنت اور مشقت سے اکٹھا کی ہوئی ہمیشگی میں تلاش کرتے ہیں۔‘‘کیوبزم کے نظریات اور اس سے متاثر ہوکر جو مختلف نظریات سامنے آئے ان کی حیثیت اس بنیادی خیال پر کہ فن خود ایک تجربہ ہوتا ہے، محض ایک حاشیے کی سی ہے۔ چنانچہ ’’تعمیرات‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے روسی نژاد اور جرمن تربیت یافتہ مصور ناؤم گیبو (Naum Gabo) نے ۱۹۳۷ء میں لکھا، ’’وہ فوری سرچشمہ جہاں سے تعمیرات کا تصور حاصل ہوتا ہے، کیوبزم ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تعمیریت اور کیوبزم میں رشتہ آپسی کشش کے بجائے آپسی تنافر کا تھا۔ تعمیریت، ہیئت اور موضوع کو الگ لگ نہیں رکھتی۔ اس کے برخلاف وہ ان کی علیحدہ یا آزاد زندگی کو ممکن ہی نہیں گردانتی۔۔۔ فن پارے میں ہیئت اور موضوع کو ایک وحدت کی طرح زندہ رہنا اور عمل کرنا چاہیے، ایک ہی سمت میں سفر کرنا اور ایک ہی اثر پیدا کرنا چاہیے۔‘‘تجریدی مصوری کے دو مختلف علم برداروں یعنی پال کلے (Paul Klee) اور واسلی کانڈنسکی (Wasily Kandinsky) کے خیالات بھی اس سلسلے میں بہت مختلف نہیں ہیں۔ کانڈنسکی نے اپنی مختصر خود نوشت سوانح میں لکھاہے کہ جب اس نے پہلی بار تاثیریت پسندوں کی تصویریں دیکھیں تو اس کو سخت انقباض ہوا۔ ’’مجھے افسوس ہواکہ مصور کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ غیرواضح طور پر تصویرکشی کرے۔‘‘ یہ اس کا پہلا تاثر تھا لیکن آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ وہ تصویر (کلود مو نے Claude meonet کی (The Haystack نہ صرف یہ کہ ’’مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی بلکہ قابل محو طریقے سے میرے حافظے پر منقش ہو رہی تھی۔‘‘ اس دن سے کانڈنسکی کی زندگی بھر یہ تمنا رہی کہ وہ ایسی مکمل تصویر خلق کرے جس میں ’’شے‘‘ کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ سوال یہ تھا کہ اگر شے کو منہا کر دیا جائے تو اس کی جگہ لینے کی تاب کس میں ہوگی؟ کانڈنسکی نے لکھا کہ برسوں کی صبر آزما محنت، غور وفکر اور ان گنت کوششوں کے بعد اس نے تصویر کشی کاوہ اسلوب حاصل کیا جو اس کے خیال میں سوال کا حل تھا، ’’مصوری مختلف دنیاؤں کا پرشور ٹکراؤ ہے، اس کی مراد یہ ہے کہ ان دنیاؤں کی آپسی کش مکشوں میں اور ان کش مکشوں میں ایک نئی دنیا بنائے جو فن پارہ ہوتی ہے۔۔۔ فن پاروں کی تخلیق کرنا دنیا کی تخلیق کرنا ہے۔‘‘مصوری کا ذکر چل پڑا ہے تو آخر میں پال کلے کو بھی سن لیجئے، ’’اجازت ہو تو ایک تشبیہ، ایک درخت کی تشبیہ، استعمال کروں۔ فن کار نے تنوعات کی دنیا کا مطالعہ کیا ہے اور ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ وہ چپکے سے اس کے اندر داخل ہو گیا ہے، چونکہ اسے سمتوں کا احساس ہے، اس لیے اس احساس نے پیکر اور تجربے کے اس بہتے ہوئے چشمے میں ایک تنظیم پیدا کر دی ہے۔ فطرت اور زندگی میں سمتوں کے اس احساس کو، ان شاخ شاخ ہوکر پھیلتی ترتیبوں کو، درخت کی جڑ سے تشبیہ دوں گا۔ اس جڑ کے ذریعہ درخت کا رس (Sap) فنکار تک پہنچتاہے۔ اس کے اندر سے ہوکر اس آنکھ تک آتا ہے۔ لہٰذا وہ درخت کے تنے کی طرح ہے۔ اس بہاؤ کی قوت سے مضروب اور متحرک ہوکر وہ اپنی بصیرت کو اپنے فن پارے میں ڈھال دیتا ہے اور دنیا کی نگاہوں کے سامنے درخت کی چوٹی زمان ومکان میں نکلتی اور پھلتی ہے، اسی طرح اس کا فن پارہ بھی۔‘‘مندرجہ بالا خیالات سے واضح ہے کہ فن پارہ خود ایک تجربہ کا حکم رکھتا ہے، کیونکہ وہ حقیقت کو دوبارہ خلق کرتا ہے، چاہے اس عمل میں ظاہری حقیقت کتنی ہی متغیر کیوں نہ ہو جائے، لیکن وہ چیز جو فن پارے میں ہے، خود ایک حقیقت ہے، لہٰذا اگر ہم اس تک نہیں پہنچ سکے تو ہمارے دیکھنے کا قصور ہے۔ افلاطونی خیال کے حامل چونکہ ہیئت اور موضوع کو الگ الگ دیکھتے ہیں (ترقی پسند اور ان کے ہم خیال نظریاتی نقاد اس معنی میں افلاطونی ہیں) اس لیے وہ ہیئت کو موضوع تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔  لوکاچ یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہیئت کے ذریعہ موضوع متشکل ہوتا ہے لیکن وہ اس بات کو نظرانداز کر گیا کہ جہاں یہ فرض کر لیا گیا کہ ہیئت ذریعہ ہے اور موضوع مقصد، تو یہ تصور بنیادی طورپر غیرضروری ہو جاتا ہے کہ موضوع کا تعین ہیئت ہی کرتی ہے۔ پھر چونکہ فن کی عملی افادیت اور انسانی (یعنی انسانوں کے لیے) کارآمدگی پر اصرار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فنکار کو غیرفنی اصولوں کے سامنے جواب دہ قرار دیا جائے، یہ ماننا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ فن پارہ ہیئت کو اسی طرح برتتا ہے جس طرح بڑھئی لکڑی کو برتتا ہے۔ لوکاچ نے اس خیال کو یوں ظاہر کیا ہے، ’’کسی مقررہ فن پارہ کے اسلوب کو کیا شے متعین کرتی ہے؟ فنکار کا ارادہ فن پارے کی ہیئت کو کس طرح متعین کرتا ہے؟ (ظاہر ہے کہ یہاں ہمارا واسطہ اس ارادے سے ہے جو فن پارے کی شکل میں متشکل ہوا ہے یعنی فن پارے کی مراد) اور کوئی ضروری نہیں کہ یہ وہی ہو جو فنکار کی شعوری مراد تھی۔۔۔ موضوع ہیئت کو متعین کرتا ہے لیکن کوئی موضوع ایسا نہیں ہے جس کا مرکزی نقطہ انسان نہ ہو۔ ادب ہمیں کیا دیتا ہے اس میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو (یعنی یہ ہمیں ایک مخصوص تجربہ عطا کرتا ہے یا ایک اخلاقی مقصد سے آگاہ کرتا ہے) لیکن بنیادی سوال یہی ہے اور یہی رہےگا، انسان کیا ہے؟‘‘لوکاچ (Lukacs) کہتا ہے کہ حقیقت پسندوں کے نزدیک انسان ارسطو کے الفاظ میں ایک سماجی جانور ہے اور جدید فنکاروں کی نظر میں انسان، ’’فطرتاً تنہا، غیرسماجی اور دوسرے انسانوں کے ساتھ سماجی روابط میں شامل ہو سکنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔‘‘ یہ اقتباسات جس کتاب سے لیے گئے ہیں (’’معاصر حقیقت پسندی کا مفہوم‘‘ ۱۹۶۳ء) وہ اپنی اصل شکل میں بہت مختلف تھی اور لوکاچ نے ہنگری پرروسی حملے کے بعد اس میں کئی تبدیلیاں کیں۔ لیکن بنیادی مفروضات پہلے جیسے ہی ہیں کہ نظریاتی تنقید کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ فن پاروں کی روشنی میں اپنی تشکیل کرے، بلکہ یہ کہ وہ فن پاروں کے لیے نسخے اور ہدایت نامے مرتب کرے۔ یہ تصورکہ انسان ایک سماجی جانور ہے، لامحالہ اس نتیجے کی طرف لے جاتا ہے کہ انفرادی تجربہ بڑی حد تک بے معنی بلکہ ضرر رساں ہے اور اگر انفرادی تجربہ ضرر رساں ہے تو وہ فن پارہ جو انفرادی یا انفرادیت آمیز تجربہ ہے، بے معنی بلکہ ضرر رساں ہو جاتا ہے۔ جدید تنقیدی نظریات (جن میں سے بعض کی اصل مصوری میں ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا) انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں، لیکن اس حد تک نہیں اور اتنے نہیں جتنا ان کے بارے میں مشہور کیا جاتا ہے۔ پال کلے کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ فن میں انسان کی اہمیت ہے، بلکہ مرکزی اہمیت ہے۔ لیکن یہاں انسان سے مراد وہ انسان نہیں ہے جو سماجی اور سیاسی مصالح کی قید وبند میں گرفتار ہے۔ فن میں انسان کی حیثیت ایک سایے کی سی ہے جو ہر شے پر حاوی ہے۔ اب آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اگر فن پارہ خود تجربہ ہے اور ہیئت ہی موضوع ہے (یہ خیال جسے عہد حاضر نے عام کیا، جدید نظریات کے بیش تر تصورات کی طرح انتہائی قدیمی ہے اور ان کی طرف مفصل اشارے کولرج سے شروع ہوتے ہیں۔) تو پھر الفاظ کی اہمیت کیا ہے؟ الیٹ کہا کرتا تھا کہ فن پارہ کسی خیال کا نہیں بلکہ Medium کا اظہار کرتا ہے اور شاعری کی حد تک یہ میڈیم محض الفاظ ہیں۔ یعنی شعر میں جس تجربے سے ہم دوچار ہوتے ہیں، وہ الفاظ کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس طرح الفاظ مرکزی حیثیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر الفاظ ہی تجربہ ہیں اور ایک فن پارہ کسی فن پارے کے تناسب میں کمزور یا معمولی ہو تو کیا وہ الفاظ جو اس کمزور فن پارے میں ہیں، کمزور کہلائیں گے؟ اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ الفاظ میں خود کوئی قوت نہیں ہوتی بلکہ کسی فن پارے میں کمزور یعنی کم با معنی اور وہی لفظ کسی دوسرے فن پارے میں بازور یا زیادہ معنی ہو سکتا ہے۔ ہمارے قدیم علمائے بلاغت کو بیان کی اس بات کا علم تھا۔ آپ کہیں گے یہ معنی کی بحث کہاں سے شروع ہو گئی؟ لیکن یہ اس لیے ناگزیرہے کہ جب تک محض تحریروں میں فرق کرنے کی بات تھی کہ ان میں سے کون سی تحریر فن پارہ ہے اور کون سی نہیں، اس وقت تک تو معنی کو زیر بحث لانے کی چنداں ضرورت نہ تھی لیکن جب یہ سوال اٹھا کہ ہم فن پارہ کے مابین فرق قائم کرنے کی کوشش کس طرح کریں، تو معنی کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ فن پارہ ایک تجربہ ہے، اس حد تک تمام فن پارے برابر ہونے چاہئیں۔ لیکن غالب کی غزل اور ذوق کی غزل، جوش کی نظم اور میرا جی کی نظم فن پارے کا درجہ رکھنے کے باوجود برابر نہیں ہیں۔ انتظار حسین اور اختر اور نیوی کے افسانے، افسانے ہیں، لیکن برابر نہیں ہیں۔ درجات کا یہ تعین کیوں کر ہو؟ ظاہر ہے کہ غالب، میراجی اور انتظار حسین کے فن پاروں سے جو تجربہ ہم کو حاصل ہوتا ہے وہ اگر ذوق، جوش اور اختر اور نیوی کے فن پاروں سے بہتر ہے تو اس لیے کہ موخر الذکر کے فن پاروں میں بیان کردہ یا پیش کردہ تجربہ ہمارے لیے اتنا قیمتی نہیں ہے۔ تجربے کی تعیین قدر خود اپنی جگہ اتنا پیچیدہ سوال ہے کہ جدید تنقید کا ایک بڑا حصہ اس کو بیان کرنے، سمجھنے اور حل کرنے میں سرگرداں رہاہے۔ سرسری طور پر یہ کہا جائے کہ وہی تجربہ زیادہ قیمتی ہے جو زیادہ خوب صورت ہو اور وہ تجربہ زیادہ خوب صورت ہے جو زیادہ با معنی ہو۔ لیکن اس سرسری بیان میں بھی بہت سی مشکلیں ہیں۔ ایک سامنے کی مشکل تو یہی ہے کہ خوبصورت اور بامعنی کی تعریف کیوں کر ہو؟ کیا کسی موقع پر خوب صورت اور کارآمد ہم معنی ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ بامعنی شے کے بارے میں اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ کارآمد بھی ہے۔ پھر اگر یہ کسی حد تک طے بھی ہو جائے کہ خوب صورت کی تعریف کیا ہے، تو یہ سوال اٹھےگا کہ کسی فن پارے میں خوب صورتی کا وجود کیوں کر ثابت ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہر شخص کے لیے خوب صورتی الگ معنی رکھتی ہے یا رکھ سکتی ہے؟ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شاعرانہ خوب صورتی پیدا کرنے والے ذرائع (مثلاً تشبیہ، استعارہ، پیکر، علامت جنھیں میں نے جدلیاتی الفاظ کا نام دیا ہے) مطلق خوب صورتی رکھتے ہیں، یا کسی فن پارے میں ان کا ہونا اس فن پارے کی خوب صورتی کی علامت ہے؟ یا وہ ذرائع فن پارے کے باہر کوئی وجود ہی نہیں رکھتے، جہاں جہاں وہ ہوں گے وہاں فن پارہ بھی ہوگا؟ ان معاملات پر گفتگو کرنے کے لیے بحث کا ایک اور دفتر کھولنا ہوگا۔ فی الوقت تو میں نے ان کا ذکر رواروی میں کیا ہے، محض یہ دکھانے کے لیے کہ تنقید اسی وقت علم کا ذریعہ بن سکتی ہے، جب وہ ایسے سولات اٹھائے۔ رچرڈس نے کوئی پچاس باون برس ادھر اپنی کتاب ’’ادبی تنقید کے اصول‘‘ (Principles of LiteraryCriticism, 1924) فن پارے میں حاصل ہونے والے تجربات کے بارے میں سوالات سے شروع کی تھی۔ آرچی بالڈمیک لیش (Archibald Macleash) نے اپنی کتاب ’’شاعری اور تجربہ‘‘ (Poetry and Experience) میں چینی شاعری کی مثال دے کر اس تجربے کی بعض نوعیتوں کو واضح کیا تھا۔ تنقید جب تک فن پارے کے حوالے سے بات کرتی ہے، علم عطا کرتی ہے، کوئی ضروری نہیں کہ یہ حوالہ براہ راست ہو۔ نقاد کے ذہن میں فن پاروں کے وجود کا شعور ایک مستقل پس منظر کی طرح رہنا چاہیے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس کے سب نتائج صحیح نکلیں۔ رچرڈس کے بھی بہت سے نتائج غلط ہیں، لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر فن پارے کا پس منظر موجود رہےگا تو نتائج کاغلط پن تو واضح ہوتا ہی رہےگا، ان سے صحیح نتائج کی طرف رہبری بھی مل سکتی ہے۔ یہ اصول تنقیدی نظریات کے سلسلے میں جتنا کارآمد ہے، اتنا ہی کارآمد عملی تنقید و تشریح میں بھی ہے۔  غالب کے منسوخ دیوان میں کئی شعر میری سمجھ کے باہر ہیں۔ لیکن جب میں گیان چند جین کی شرح یا محمد مجیب کا ترجمہ پڑھتا ہوں تو شعر نہ صرف سمجھ میں آتے ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ شرح ترجمہ سے بعض اوقات ان مفاہیم تک بھی میری رسائی ہو جاتی ہے جو میرے خیال میں گیان چند جین یا محمد مجیب کے برآمد کردہ مفاہیم سے مختلف اور میری نظر میں بہتر ہوتے ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس طول کلامی کو وہیں ختم کرنا بہتر ہوگا جہاں سے رچرڈس نے شروع کیا تھا، ’’وہ کون سی شے ہے جو کسی نظم کو پڑھنے کے تجربے کو قیمتی بناتی ہے؟ یہ تجربہ کسی اور تجربے سے کیوں بہتر ہے؟ ایک تصویر کو دوسری پر کیوں ترجیح دی جائے؟ موسیقی کو ہم کن طریقوں سے سنیں کہ قیمتی ترین لمحات حاصل کر سکیں؟ فن پاروں کے بارے میں ایک رائے دوسری رائے کے اتنی اچھی (یعنی صحیح) کیوں نہیں ہوتی ہے؟ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جن کے جوابات تنقید کو دینا ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان ابتدائی سوالوں کے بھی جواب درکار ہوتے ہیں تاکہ اوپر کے سوالوں تک پہنچ سکیں۔ ایک تصویر، ایک نظم، موسیقی کا ٹکڑا کیا ہوتا ہے؟ مختلف تجربات کے درمیان موازانہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ قدر کسے کہتے ہیں؟‘‘آپ کے غور وفکر کی راہ آسان کرنے کے لیے یہ اشارہ کرتا چلوں کہ رچرڈس نے فن پارے میں قدر (Value) کے معاملے کو حل کرنے میں بڑی غلطیاں کیں اور یہ کہ اس کا جملہ ہے، ’’?What is a poem‘‘اس کے علاوہ دو معنی ہیں۔ ایک تو وہی جو میں نے اوپر ترجمے میں بیان کیے اور دوسرے یہ کہ ’’وہ کیا چیز ہے جسے نظم کہتے ہیں؟‘‘