کیا نقاد کا وجود ضروری ہے؟

تنقیدمیں کوئی کسی کا ہم سر یا ہم سفر ہوتا یا ہو سکتا ہے، یہ بات بڑی مشکوک ہے۔ بعض لوگ جو نقادوں سے یا تنقیدوں سے ناراض ہیں، وہ تو یہ کہتے ہیں کہ جس سے تخلیق نہ بن پڑے وہ تنقیدکی دکان کھولتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم سری یا ہم سفری کا کیا سوال؟ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی صورت میں راگ بےسرا ہوگا، کیوں کہ اگر ڈفلی والا صحیح سر نکالنے پر قادر ہوتا تو خود موسیقار نہ بن جاتا؟ تنقیدنگاروں کے دل میں یہ خلش بہت دن سے ہے کہ وہ تخلیقی فنکار سے کم تر درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر یہ کوشش بھی ہوئی کہ تنقید کو بھی تخلیق قرار دیا جائے۔


مرحوم باقر مہدی نے بہت دن ہوئے بڑے زور شور سے اعلان کیا تھاکہ تنقید بھی تخلیق ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ بات ثابت اور واضح ہوتی تو اسے کہنے یا اس کے بارے میں اعلان نامہ مرتب کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ کچھ مدت ہوئی ایک مغربی نقاد نے لکھا تھا کہ چونکہ تنقید بھی ادب سے اسی طرح برسرپیکار ہوتی ہے جس طرح زندگی سے ادب برسرپیکار رہتا ہے، لہٰذا دونوں ایک ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تو قیاس مع الفارق والی بات ہو گئی۔ ادب سے برسرپیکار ہونا اور زندگی سے برسرپیکار ہونا الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور یہ بات بھی ثابت نہیں کہ ادب اور زندگی کے درمیان اسی طرح کی پیکار ہے جیسی پیکار ادب اور تنقید کے مابین ہے۔ یہ سب دعوے اور پرجوش تصدیقیں احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اور احساس کمتری والے ایک دوسرے کے ہم سفر نہیں، دشمن ہوتے ہیں۔


میرے دل میں بہرحال اس قسم کا کوئی احساس کمتری نہیں، کوئی شک، کوئی خلش نہیں۔ میں تخلیق کو تنقید سے افضل مانتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تنقیدی تحریر کی زندگی کئی باتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تنقید اپنی جگہ پر جامد ہوتی ہے۔ اس کے معنی زمانے کے ساتھ بدلتے نہیں لیکن تخلیق کی نوعیت حرکی ہے، زمانے کے ساتھ اس کے معنی اور معنویت دونوں بدل سکتے ہیں، لہٰذا تنقید ایک محدود کارگذاری ہے، چاہے اس میں کتنی ہی چمک دمک کیوں نہ ہو اور چاہے اس کے بارے میں کتنے ہی جلسے کیوں نہ منعقد ہوں اور کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کئے جائیں، حافظ،


گوشوار درولعل ارچہ گراں دارد گوش
دور خوبی گذرانست نصیحت بشنو


لیکن میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ نقاد کے بغیر تخلیق کا بازار بھی مندا ہو جائےگا۔ اگر بقول کولرج، تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں نئی تخلیقات کی خوبیوں کے بارے میں مطلع کرے، تو ظاہر ہے کہ تنقید نگار کی غیرحاضری کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نئی تخلیق کی خوبیاں نمایاں نہ ہو پائیں گی اور جب یہ صورت حال دیر تک قائم رہےگی تو تخلیق کار کی ہمت پست ہو جائےگی۔ ممکن ہے کہ اس باعث نئی تخلیق کی راہیں ہی مسدود ہو جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر تخلیق، وہ نئی ہو یا پرانی، اپنی جگہ پر نادر اور ایک معنی میں بےنظیر شے ہے۔


نقاد کاکام ہے کہ فن پارے کی ندرت کو دریافت کرے اور بیان کرے اور اس طرح ہمیں بتائے کہ کوئی فن پارہ کس طرح اور کیوں نادر کہا جا سکتا ہے اور جب ایک ہی فن پارے کے بارے میں مختلف طرح کی ندرتیں ثابت کرتے ہیں تو تخلیقی فنکار کو اپنے امکانات کا پتہ چلتا ہے اور اسے نئے نئے اسالیب اظہار کو ایجاد کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح نقاد کا وجود تخلیقی سرگرمی کی ضمانت ٹھہرتا ہے۔


ایک صاحب نے پوچھا کہ پرانے زمانے میں میروغالب تھے لیکن نقاد نہیں تھے۔ پھر اس زمانے میں اتنی عمدہ شاعری کیوں کر ہوئی اور نقاد آج ضروری کیوں ہوئے؟ یہ سوال بظاہر بہت چھبتا ہوا سا ہے لیکن اس کے کئی شافی جواب ممکن ہیں۔


(۱) پہلی بات تو یہ کہ بہت سے سماجی اداروں کی طرح نقاد بھی ایک سماجی ادارہ ہے اور سماجی اداروں کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ وابستہ ہے کہ ہرچند وہ انسان ہی کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن جب وہ ایک بار بن گئے تو انسان انھیں منسوخ نہیں کر سکتا۔ اس اصول کا عمل ہم عام زندگی میں ہر طرف دیکھتے ہیں۔ نکاح سے لے کر میونسپلٹی تک لاتعداد ادارے ہیں جو ہم نے بنائے، لیکن ہم انھیں مٹا نہیں سکتے، بلکہ منسوخ بھی نہیں کر سکتے، لہٰذا نقادی کا ادارہ، یا نقادوں کا حلقہ جب وجود میں آ گیا تو آ گیا، آپ اسے ختم نہیں کر سکتے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ نقادوں سے لڑیں، انھیں فضول قرار دیں یا اس بات کی چھان بین کریں کہ نقادوں کاحلقہ کب اور کیوں وجود میں آیا؟ لیکن اب، جب یہ اشرار دنیاے ادب میں آ گئے تو آ گئے، یہ قائم رہیں گے۔


(۲) پہلے زمانے میں بھی نقاد تھے، چاہے وہ باقاعدہ ادارے کی شکل میں نہ رہے ہوں۔ دور کیوں جائیے، غالب کے بارے میں مصطفیٰ خاں شیفتہ کا بیان پڑھئے کہ سخن گو تو بہت ہیں، لیکن سخن فہم بہت کم ہیں اور غالب کا کمال یہ ہے کہ وہ سخن گو بھی ہیں اور سخن فہم بھی بلکہ شیفتہ نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی ہے، گویا وہ سخن فہم کا درجہ سخن گو سے بلند سمجھتے ہیں۔


(۳) تیسری بات یہ کہ ہر تخلیقی فنکار اپنے طور پر نقاد بھی ہوتا ہے۔ اس کی تنقیدی حس اسے بتاتی ہے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے یا جو متن وہ بنا رہا ہے، وہ فن پارہ کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں اور اگر اس کی بنائی ہوئی چیز فن پارہ ہے تو وہ اچھا یا (شاید) بڑا فن پارہ کہلانے کے لائق ہے کہ نہیں؟ تنقیدی شعور کے سوا وہ کیا شے ہے جو تخلیق کار کو اس بات کا جواب فراہم کرتی ہے کہ جو لفظ میں نے یہاں لکھا ہے وہ انھیں معنی یا تقریباً انھیں معنی کے حامل فلاں لفظ سے بہتر ہے؟ تنقیدی شعور کے بغیر تخلیقی فنکار کو کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مضمون، فلاں مضمون سے نادرتر ہے اور فلاں معنی، فلاں معنی سے لطیف تر ہیں؟


(۴) چوتھی بات یہ کہ قدیم الایام میں بھی تنقید اور نقاد موجود تھے۔ کم از کم یونان اور چین کے بارے میں تو بےکھٹکے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تنقید اور تخلیق دونوں کم وبیش بیک وقت موجود تھے۔ ہندوستان اور عرب کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تخلیق کے وجود اور تنقید کے ظہور کے درمیان زیادہ فصل نہ تھا۔


(۵) پانچویں بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں شاگرد استاد کا ادارہ موجود تھا (کم ازکم اٹھارویں صدی کے آغاز سے) اور استاد کا کام کم وبیش وہی تھا جو آج نقاد کا ہے۔


(۶) چھٹویں بات یہ کہ شیفتہ کے بیان میں ایک نکتہ اور بھی ہے، اگر سخن فہم کم ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ تنقیدی صلاحیت چاہے بالقوت بہت سے لوگوں میں ہو، لیکن بالفعل وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے، یعنی ایسے لوگ کم ہیں جو اپنی سخن فہمی کا اظہار مدلل اور مربوط زبان میں کر سکیں یعنی تنقید سب کے بس کا روگ نہیں لیکن چونکہ سخن فہمی ضروری چیز ہے، اس لئے ہمیں سخن فہموں کو برداشت کرنا چاہئے، بلکہ اگر ہو سکے تو ان کی ہمت افزائی کرنی چاہئے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر سخن فہمی (تنقیدی شعور) کچھ بہت زیادہ عام نہیں، تو نقاد بھی دنیا میں اسی طرح تنہا ہوگا جس طرح تخلیقی فنکار دنیا میں تنہا ہوتا ہے اور بسااوقات مادہ پرست دنیا کے سامنے خود کو پسپا ہوتا ہوا پاتا ہے۔ ورڈ زورتھ نے غلط نہیں کہا تھا،


We poets in our youth begin in gladness,
But thereof in the end comes despondency and madness,


(ہم شاعر لوگ زمانۂ نوجوانی میں مسرت اور انبساط کے ساتھ آغاز کار کرتے ہیں، لیکن آخر آخر اسی مسرت اور انبساط سے مایوسی اور دیوانگی جنم لیتی ہے۔)


اس مایوسی اور دیوانگی کی شکل تنقید میں بھی نظر آتی ہے، جب نقاد کہہ اٹھتا ہے کہ ’’ہزار تجزیہ و محاکمہ کے بعد جو شے بچ رہے وہ شاعری ہے۔‘‘ یعنی تخلیق کی اصل روح ہمارے ہاتھ نہیں آتی۔ نقاد محسوس کرتا ہے کہ وہ ہزار سر مارے، ہزار علمیت بگھارے، لیکن وہ فن پارے کی گہرائیوں کو پوری طرح نہیں کھنگال سکتا، اس کی ہر تہہ کو کرید نہیں سکتا، اس کی عظمت، رفعت اور حسن کو پوری طرح ظاہر نہیں کر سکتا۔


اگر نقاد میں انکسار نہ ہو، اگر وہ فن پارے کے سامنے خود کو محجوب اور محدود نہ محسوس کرے تو اچھا نقاد نہیں۔ پرانے لوگوں میں ایک بری عادت یہ تھی کہ جب کوئی تحریر ان کے مفروضات پر پوری نہ اترتی تو وہ اسے مسترد کر دیتے تھے۔ دوسری خرابی ان میں یہ تھی کہ وہ جس چیز کو سمجھنے سے قاصر رہتے اسے مہمل کہہ دیتے تھے۔ اس زمانے میں نقادوں کی بیماری یا وہ گوئی ہے۔ جب کچھ کہنے کو نہ ہو تو انشاپردازی کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے اور لاطائل انشا پردازی کے ساتھ جب یہ بھی زعم ہو کہ نقاد کا مرتبہ تخلیقی فن کار سے بالاتر ہے، تو ناقدین کرام تنقید لکھنے کے بجائے ہفوات اگلنے لگتے ہیں اور تخلیقی فن کار ہی کو نہیں، عام طالب علم اور قاری کو بھی شکایت بھرے لہجے میں پوچھنا پڑتا ہے کہ تنقید اگر یہی ہے تو پھر تنقید کی ضرورت کیا ہے؟


ہم لوگوں نے جب لکھنا شروع کیا تو تنقیدی تصورات کا گویا ایک سیلاب تھا، جسے ہم نے ہزار طرح کی قیدوبند کو توڑکر ترقی پسند ادب کے دشوار گذار میدان اور تنگ وادیوں میں رواں کیا تھا۔ اس وقت ہر شخص کے پاس کہنے کو کچھ تھا اور وہ اسے بڑے زور شور سے کہہ رہا تھا۔ ہمارے پاس بعض نمونے اور مثالیں بھی تھیں۔ بزرگوں میں آل احمد سرور، کلیم الدین احمد اور محمد حسن عسکری، بعد کے لوگوں میں خلیل الرحمن اعظمی تھے، سلیم احمد تھے، ہم ان سے جھگڑتے بھی تھے اور ان سے محبت بھی کرتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ تنقید تو نام اسی صورت حال کا ہے کہ شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا۔


فن پارے کی کوئی تعبیر حتمی اور آخری نہیں ہوتی، لہٰذا کوئی تنقید حرف آخر نہیں ہو سکتی۔ تنقید کا کام ادبی معیاروں کی روشنی میں ادب کی قدروقیمت متعین کرنا ہے اور ’’ادب‘‘ سے مراد پورا ادبی سرمایہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تاریخی مطالعے کے دوران ہم ادب کے مختلف ادوار متعین کریں یا کسی زمانے کے ادب کو قدیم اور کسی کو جدید قرار دیں لیکن جب ادبی تنقید کی بات ہوگی تو پھر وہی تنقید کارآمد اور بامعنی ہوگی جو پورے ادب سے معاملہ کر سکے۔


ترقی پسند نظریۂ ادب میں سب سے بڑی کمزوری یہی تھی کہ وہ صرف ایک خاص طرح کے ادب سے معاملہ کر سکتا تھا اور جو ادب اس کے تقاضوں پر پورا نہ اترے، اس کو برتنے اور سمجھنے سمجھانے کے لئے کوئی اصول اس کے پاس نہ تھے۔ ایسی صورت میں یقیناً تنقید کی ضرورت یا افادیت پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ اگر کوئی تنقید ہمیں مرثیہ، قصیدہ، مثنوی کا علم نہیں عطا کر سکتی تو وہ تنقید نہ صرف یہ کہ ادھوری رہے گی، بلکہ اس کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھےگا کہ ایسی تنقید ہمیں دوسرے قدیم یا جدید اصناف سخن کا بھی علم عطا کر سکےگی کہ نہیں؟


آج اگر تنقید اور تنقیدنگاروں کے بارے میں قاری کے دل میں شکوک ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اکثر نقاد نہ صرف کم علم ہیں اور دوست نوازی کی علت میں مبتلا ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ ان میں پورے ادب کو برتنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں جب پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہہ کر نکل جایا کرتے تھے کہ ہمارا پرانا ادب زیادہ تر ازکار رفتہ ہے اور ہمارے لئے کوئی دلکشی یا معنی نہیں رکھتا۔ آج کا قاری زیادہ ہوش مند ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ادب گنے کی طرح نہیں کہ جس کی دو چار پوریں کاٹ دیں تب بھی بقیہ گنا میٹھا اور لطف اندوزی کے لائق رہتا ہے۔


آج ہم جانتے ہیں کہ ادب ایک تسلسل ہے، اس میں الگ الگ خانے نہیں ہیں جن میں ہم کچھ ڈال سکتے ہیں اور جن سے ہم کچھ نکال سکتے ہیں۔ گذشتہ زمانے کے نقادمرثیہ اور داستان کے ساتھ انصاف اسی لئے نہ کر سکے تھے کہ وہ غزل اور قصیدے کی شعریات سے واقف نہ تھے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ داستان نہ ہو تو قصیدے کے بھی بعض پہلو ہم سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں اور مرثیہ نہ ہو تو داستان کے کئی پہلو ہم سے پوشیدہ رہ سکتے ہیں۔


آج اگر نقاد کو اپنے وجود کو ضروری ثابت کرنا ہے تو اسے لازم ہے کہ تخلیق کے سامنے انکسار برتے۔ دوسری بات یہ کہ اب نقاد کو پورے ادب سے معاملہ کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔ یہ دو باتیں نہ ہوئیں تو ہزار مربیانہ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ہمارا نقاد ادب کی گاڑی کا پانچواں (اور بیکار) پہیہ بن کر رہ جائےگا۔