ہم سب جغرافیے کے قیدی کیسے ہیں؟ٹم مارشل کی کتاب پر تبصرہ
"جس زمین پر ہم بستے ہیں اسی نے ہمیشہ ہمیں ترتیب دیا ہے۔ تقریباً تمام زمین پر آباد انسانوں کی جنگوں، طاقت، سیاست اور سماجی فلاح کا تعین اسی نے ہی کیا ہے۔" (ٹم مارشل، پرزنرز آف جیوگرافی، صفحہ ۱)
یہ ہے بنیادی فلسفہ جس کے گرد ٹم مارشل نے اپنی دلچسپ اور اہم کتاب جغرافیے کے قیدی (Prisoners of Geography) کو لکھا ہے۔ اس میں مارشل نے دنیا بھر کے خطوں کی جغرافیائی مجبوریوں، محرومیوں، مواقع، فائدوں، نقصانات سب کو نہایت اختصار اور جامعیت سے لکھاہے۔ انہوں نے تاریخی، معاشی اور تزویراتی حوالوں سے تفصیل سے بتایا ہے کہ پیوٹن جب نیٹو کے یوکرین کی طرف بڑھتے قدم دیکھتے ہیں تو کیوں سیخ پا ہونے لگتے ہیں، کیوں چین تبت اور سنک یانگ کو ہر قیمت پر اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے، امریکہ نے دو سمندروں بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کے درمیان کیسے خود کو ناقابل تسخیر بنا لیا ہے، یورپ کے ممالک آپس میں اکٹھے کیسے ہیں، افریقہ کے خطے کی مشکلات کیا ہیں، مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سرحدوں نے کیا تنازعات جنم دیے ہیں، برصغیر پاک و ہند کے دونوں بڑے ممالک کےلیے کیا جغرافیائی مجبوریاں ہیں اور جنوبی امریکہ کا خطہ کیا عجائبات سمیٹے بیٹھا ہے۔
اس کتاب کے ذریعے کوئی بھی انتہائی آسانی سے عالمی سٹیج پر بچھی سیاست کی شطرنج پر ممالک کے مفادات کو پہچان سکتا ہے۔ ساری کتاب میں سب سے دلچسپ چیز اس کا بنیادی فلسفہ ہے۔ وہ یہ کہ کیسے قدرتی جغرافیہ، یعنی یہ پہاڑ، وادیاں، صحرا، سمندر، دریا اور ہموار سطحیں مل کر ریاستی فیصلوں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جغرافیہ ایک ڈکٹیٹر ہے جو انتہائی خاموشی سے اپنے اندر بسنے والے انسانوں کے مفادات کو طے کر رہا ہے۔ مثلاً روس وسیع رقبہ رکھنے کی وجہ سے نا قابل تسخیر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شمال مشرقی یورپ سے منسلک حصہ، جہاں پولینڈ موجود ہے اس کے تسخیر ہونے کے کچھ نہ کچھ امکانات پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے روس ہر طرح محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خارجہ اور دفاعی پالیسی اسی سے ترتیب پاتی ہے۔ اسی جگہ کی وجہ سے ابھرے مفادات کے دفاع کے لیے وہ عالمی سیاست کھیلتا ہے۔ اسی لیے وہ یوکرائن کے لیے ہر حد تک جانے کا کہتا ہے۔ یہ جغرافیے کا طے کردہ گرم پانیوں کا مفاد ہی تھا جو اسے افغانستان کھینچ لایا تھا اور اب اسی چیز نے اسے یوکرائن پر حملے پر مجبور کیا۔
اس کتاب کے مصنف ٹم مارشل ایک برطانوی صحافی ہیں۔ تیس برسوں سے زائد سے وہ بی بی سی اور سکائی نیوز جیسے عالمی شہرت کے حامل اداروں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ 2004 سے 2009 تک ایم آئی سکس (MI6) کے چیف سیکرٹ انٹیلجنس آفیسر سر جون سکارلٹ نے اس کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے مارشل کے بارے میں کہا : وہ اس طرح کے موضوع پر کتاب لکھنے کے لیے غیر معمولی شخص ہیں۔ کیونکہ انہوں نے گزشتہ پچیس برسوں میں ہونے والی کئی اہم ڈرامائی پیش رفت میں براہ راست حصہ لیا ہے۔ وہ اولین صفوں میں موجود تھے جب افغانستان اور شام جیسے خطوں میں اہم ترین پیش رفت ہوئیں۔ اسی لیے کتاب میں کئی مقامات پر ان کے براہ راست تجربات پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے بتایا کہ جب گیارہ ستمبر کے بعد برطانوی اور امریکی ہیلی کاپٹر اور جنگی جہاز افغانستان پر پل پڑے تھے تو انتہائی تیز ریت کا طوفان اٹھا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا جب مغربی طاقتیں شمالی اتحاد کے ہم رقاب، مزار شریف کے مشرقی طرف بمباری کر رہیں تھیں۔ ریت کے اس طوفان نے دنیا کی سب سے طاقت ور فوج کی پیش قدمی کو روک کر اسے بے بس کر دیا تھا۔ ٹم مارشل اس وقت شمالی اتحاد کی فوجوں کے ساتھ موجود تھے اور سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
یہ تو ایک واقعہ ہے، کتاب میں دیگر مقامات بھی ہیں جہاں پڑھنے کو مل جاتا ہے کہ قدرت آج بھی انسان کو بے بس کر کے اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ بہر حال، کتاب گو کہ انتہائی دلچسپ ہے اور پڑھنے کے قابل ہے، لیکن ٹم مارشل کے ضرورت سے زائد مغرب پرستانہ اور قوم پرستانہ رویے نے کتاب میں سے غیر جانب داری کو ختم کردیا ہے۔ ایک طرف تو وہ پیوٹن پر کتاب کے شروع میں ہی طنزیہ فقرے کستے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف جب امریکہ پر بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی محب وطن شخص اپنے ملک کی خوبیاں گنوا رہا ہے۔ حالانکہ مارشل برطانوی مصنف اور صحافی ہیں، امریکی نہیں۔ مارشل کا یہ رویہ کتاب کی اہمیت کو خاصا کم کرتا ہے۔ کوئی بھی ان جیسے منجھے ہوئے مصنف سے اس قسم کے رویے کی توقع نہیں کرتا۔
اگر مارشل کے اس رویے کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ کتاب ہر اس طالب علم کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو حالیہ دور میں عالمی منظر نامے پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ کتاب کے ہر باب کو ایک خاص خطے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور اس میں اس خطے سے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ جب مارشل موجودہ حالات کو تاریخی پس منظر میں دکھاتے ہیں تو بہت ساری باتوں پر سے دھند چھٹنے لگتی ہے۔