کرونا سے دماغ کا سکڑنا: نئی تحقیق سامنے آگئی!
کچھ عرصہ سے ہمارے علم میں آ چکا ہے کہ کرونا ہمارے نروس سسٹم کو متاثر کر سکتا ہے۔ کرونا سے متاثرہ چند لوگ بہت سی دماغی پیچیدگیوں سے گزرتے دیکھے گئے ہیں۔ ان پیچیدگیوں میں ذہنی الجھن، جھٹکے لگنا، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ، ، سر میں درد، حواس کا متاثر ہونا، ڈپریشن اور حتیٰ کہ سائکوسز شامل ہیں۔ یہ تمام اثرات کرونا سے متاثر ہونے کے مہینوں بعد بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے اب اس ضمن میں پئیرڈ رویو (peered review) تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق میں انہوں نے سات سو پچاسی 785 افراد کا دماغ سکین کر کے آپس میں موازنہ کیا ہے۔ یہ افراد اکاون سے اکاسی برس کے درمیان تھے، جن میں سے چار سو ایک 401 افراد کرونا سے متاثر ہو چکے تھے اور تین سو چوراسی نہیں۔ متاثرہ لوگوں کے پہلے اور دوسرے دماغی سکین کے درمیان اوسطً 141 دن کا وقفہ تھا۔ یعنی پہلا سکین اس وقت کیا گیا جب انہیں کرونا مثبت آیا اور دوسرا اوسطاً 141 دن بعد۔
اس موازنے سے اندازہ ہوا کہ جن افراد کا کرونا مثبت آیا تھا،ان کے دماغ میں زیادہ سکڑاؤ تھا، ان کا گرے میٹر grey matter بھی زیادہ کم ہوا تھا اور ٹشو بھی زیادہ خراب ہوئے تھے۔ یہ تمام اثرات دماغ کے ان حصوں میں ابتدائی انفیکشن کے مہینوں بعد بھی موجود تھے جو کہ سونگھنے اور ذہنی استطاعت سے منسلک ہوتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ یہ تحقیق لمبے عرصے تک رہنے والی کرونا کی علامات پر کچھ نہ کچھ روشنی ڈالتی ہے، لیکن میں تنبیہہ کرتا ہوں کہ ان حقائق کوابھی عمومی نتیجہ نہ سمجھا جائے،قبل اس کے کہ اس موضوع پر مزید تحقیقات کے نتائج آ لیں۔
محققین کا کہنا ہےکہ اگرچہ کرونا کے یہ اثرات عمر رسیدہ لوگوں میں زیادہ ہیں جو کرونا کی علامات کے باعث ہسپتال میں داخل رہے، لیکن ان لوگوں کے دماغ میں بھی کچھ نہ کچھ تبدیلی دیکھی گئی ہے جن میں کرونا کی علامات قدرے ہلکی تھیں۔ اس کے باوجود کہ ہماری تحقیق کے چھیانوے فیصد شرکا میں انفیکشن کی علامات ہلکی تھیں، گرے میٹر اور ٹشو کی خرابی کو اچھا خاصا دیکھا گیاہے۔ یہ اثرات اوسطاً ساڑھے چار ماہ بعد دیکھے گئے ہیں۔ یہ کہنا تھا پروفیسر Gwenaëlle Douaud کا جو کہ اس تحقیق کے سربراہ ہیں۔
تحقیق میں متاثرہ لوگوں کی پیچیدہ امور سرانجام دینے کی ذہنی استطاعت میں اچھی خاصی کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ کمی جزوی طور پر اس دماغی توڑ پھوڑ کی وجہ سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی کی یہ تحقیق اس وقت ہوئی تھی جب برطانیہ میں الفا ویرینٹ پھیلا ہوا تھا، لہٰذا اس کے امکان بہت ہی کم ہیں کہ تحقیق میں ڈیلٹا وئیرینٹ کے متاثرہ افراد بھی شامل ہوئے ہوں گے۔ محققین نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ویکسینیشن کے ان نتائج پر کچھ اثرات ہیں یا نہیں۔
تحقیق کے دوران تمام برین سکین کے ظاہر کردہ نتائج کو اگر ہم ایک ایک کر کے نکات کی شکل میں دیکھیں تو وہ یہ ہیں:
1۔ گرے میٹر کی موٹائی میں اچھی خاصی کمی اور ایسے ٹشوز میں کمی جو فرنٹل کورٹکس cortex کے مدار اور Para hippocampal gyrus. کو علیحدہ کرتے ہیں۔ فرنٹل کورٹکس کا مدار دماغ کا وہ حصہ ہے جو جذبات، موڈ اور افسردگی کے احساسات کی تبدیلی کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ کے دیگر امور اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ Para hippocampal gyrus. ہماری یاداشت اور شعور کو کنٹرول کرتا ہے۔ اسی وجہ سے علامات جیسا کہ ، ڈپریشن ، تناؤ اور ذہنی دھندلاہٹ کو متاثرہ افراد میں دیکھا گیا ہے۔ یاد داشت کی کمزوری بھی متاثرین میں سامنے آئی ہے۔
2۔ کرونا کی وجہ سے primary olfactory cortex سے منسلک ٹشوز میں بھی ٹوٹ پھوٹ دیکھی گئی ہے۔ دماغ کے یہ حصے سونگھنے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
3۔ دماغ کے سائز میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ یعنی کرونا سے پہلے کے سکین اور بعد کے سکین میں دماغ کا سائز تبدیل تھا۔
4۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ کرونا سے پیدا ہونے والے اثرات لمبے عرصے تک ہیں یا مستقل۔ اور یہ بھی نہیں جانتے کہ جوان افراد میں بھی یہ اثرات اسی طرح ہیں یا ان میں مختلف ہیں۔
5۔ یہ تحقیق اس وقت ہوئی ہے جب الفا ویرینٹ پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا ڈیلٹا اور اومیکرون کے متاثرین کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آیا کہ ان میں بھی یہ اثرات اسی طرح ظاہر ہوتے ہیں یا ان کے اثرات مختلف ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ تحقیق، پہلی باقاعدہ تحقیق ہے جس سے دماغ اور کرونا کے مابین براہ راست کنیکشن سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں مزید تحقیقات کی بہت ضرورت ہے۔