بھارتی عدالت سے عمر قید پانے والے کشمیری رہنما یاسین ملک کون ہیں؟
بالآخر یاسین ملک کو بھی عمر قیدکی سزا سنادی گئی۔ بنگلہ دیش ہو یا مقبوضہ کشمیر، پاکستان کے ساتھ جڑے حریت کے پروانوں کے نصیب ایسے ہی ہیں۔ عمر قید ہو یا پھانسی کی سزا، انہیں نہ اب تک کوئی جھکا سکا ہے اور نہ جھکا سکے گا۔ البتہ پاکستان کے نام پر اپنا سب کچھ وار دینے والا ہر غازی اور ہر شہید ہمارے لیے ایک سوال ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک سوال یاسین ملک نے بھی ہم سے کردیا ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ جب 25 مئی کو یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی جارہی تھی، پاکستان کی قیادت اقتدار کی رسا کشی میں مصروف تھی۔
کشمیر کی آزادی کا ایک اور متوالا یاسین ملک خود مدعی اور خود ہی منصف کے اصول کے تحت چلنے والے مقدمے میں عمر بھر کے لیے قید کر دیا گیا اورپاکستان جو کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے اور اپنی اس شہ رگ کی اخلاقی و سفارتی حمایت کی ریاستی پالیسی پر کاربند ہے، کے حکمران چند گول مول بیان جاری کر کے فارغ ہو گئے۔یاسین ملک نے اپنی سزا سے پہلے اپنے نام نہاد منصف کے منہ پر طمانچہ ان الفاظ میں مارا:
"میں عدالت سے کسی چیز کی بھیگ نہیں مانگوں گا۔ میرا کیاسین اس کے پاس ہے، وہ چاہے جو فیصلہ کر دے۔"
یاسین ملک کون ہیں؟
کشمیر کی آزادی کے لیے جد و جہد کرتے اور برسوں سے قیدوبند کی صعوبتیں سہتے تین چار رہنماؤں کے نام لیے جائیں تو ان میں یاسین ملک بھی ہوگا۔ نشیلی آنکھیں رکھنے والا آزادی کا یہ متوالا 1966 میں سری نگر میں پیدا ہوا۔ بھارتی افواج کی جانب سے جن مظالم کے ماحول میں یاسین ملک پروان چڑھے، اس نے انہیں کم عمری میں ہی حریت پسند بنا دیاتھا۔ کہتے ہیں ان کی سیاسی کاروائیوں کا آغاز اسی کی دہائی کے اوائل میں ہوا جب انہوں نے تالہ پارٹی نامی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ اس پارٹی کی بنیاد بھارتی افواج کی جانب سے ٹیکسی ڈرائیورز پر تشدد کے واقعے کے بعد ڈالی گئی تھی۔ 1983 میں جب بھارت نے دہلی کے تہار جیل، جہاں اب بھی یاسین ملک قید ہیں، میں ایک کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی دے ڈالی، تو کشمیر بھر میں حریت پسند بلبلا اٹھے۔ اسی دوران کشمیر کے ایک سٹیڈیم میں جاری بھارت اور ویاسینٹ انڈیز کے مابین میچ کویاسین ملک کی تالہ پارٹی نے غارت کر ڈالا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب میچ کے دوران وقفہ ہوا تو تالہ پارٹی کے کارکنان نے پچ اکھیڑ دی۔
1984 وہ سال تھا جب یاسین ملک پہلی بار پس زندان گئے۔ پھر ان کی اذیتوں کا وہ باب رقم ہونا شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ قید وبند کی صعوبتوں سے ان کا چہرہ اور ہاتھ بھی متاثر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 1986 میں جیل سے گلو خلاصی کے بعد یاسین نے اپنی تالہ پارٹی کا نام بدل کر اسلامک سٹوڈنٹ لیگ رکھ دیاتھا۔ مبینہ طور پر یٰس ان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے 1989 میں اس وقت جموں و کشمیر کے وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کیاتھا۔ یہ اغوا حکومت کو اپنے کچھ ساتھی رہا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تھا۔
کہا جاتا ہے اس واقعے کے نتیجے میں رہا ہونے والے اشخاص میں اشفاق مجید وانی، آزادی کی خاطر تختہ دار پر جھول جانے والے مقبول بٹ کے بھائی غلام نبی بٹ اور دیگر کچھ ساتھی تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کشمیریوں کی تحریک آزادی مسلح جدوجہد کے راستے پر چل پڑی تھی اور آئے دن مجاہدین اپنی کاروائیاں کر رہے تھے۔ 1990 میں یاسین ملک کے ساتھی اشفاق مجید وانی شہید ہو گئے۔ مبینہ طورپر وہ ایک گوریلا کارروائی کر رہے تھے جس میں یاسین ملک بھی شریک تھے۔ یاسین ملک زخمی ہوئے اور گرفتار ہو گئے۔ وانی کشمیر لبریشن فرنٹ کے مسلح ونگ کے کمانڈر تھے۔ دو اہم رہنماؤں کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد لبریشن فرنٹ خاصا دباؤ میں آ گیاتھا۔ 1994 تک یاسین ملک جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیتوں بھرا وقت کاٹتے رہے۔
1994 میں یاسین ملک نے بھارتی افواج سے جنگ بندی کا اعلان کیا اور ہتھیار پھینک دیے۔ ان کی قیادت میں کشمیر لبریشن فرنٹ اور بھارتی حکومت کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔ یہ ان کی زندگی کا اہم موڑ تھا، جس کا ذکر وہ متعدد بار اپنے انٹرویوز میں بھی کر چکے ہیں۔ 1994 سے انہوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا، جس پر وہ آج اپنی سزا تک کاربند ہیں۔ پر امن جدوجہد کے دوران انہوں نے کئی ایک بھارتی اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مقدمہ پوری شان سے لڑا۔ 1999 میں لاہور ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واج پائی سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔
2003 میں جب 2001 سے پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشیدہ حالات جنگ بندی پر منتج ہوئے تو یاسین ملک کا پاکستان خاصا آنا جانا شروع ہوا۔ وہ جہاں پاکستان میں کئی رہنماؤں کو ملتے رہے، وہیں بھارت میں بھی چیدہ چیدہ رہنماؤ ں سے مل کر انہیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا کہتے رہے۔ عمر کے اسی حصے میں ان کی پاکستان میں محترمہ مشال سے ملاقاتیں شروع ہوئیں جن سے وہ 2009 میں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ 2012 میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام رضیہ سلطانہ رکھا۔ افضل گرو، جن کو بھارت اپنے پارلیمان پر 2001 میں حملے کے الزام پر گرفتار کر چکا تھا اور بنا کسی ثبوت کے عدالتی قتل کرنا چاہتا تھا، کے لیے 2013 میں یاسین ملک نے بھوک ہڑتال بھی کی۔ لیکن قاتل تو آپ کو پتہ ہے خون کا پیاسا ہی رہتا ہے۔ 2017میں یاسین صاحب کے خلاف بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے دہشتگردی کی مالی معاونت کا الزام لگایا۔ 2019 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور تب سے لے کر اب تک وہ دہلی کے تہار جیل میں ہی قید ہیں۔ پانچ فروری 2022 کو جیو کے معروف پروگرام جرگہ میں انٹرویو کے دوران ان کی اہلیہ نے بتایا کہ انہیں جیل میں قیدیوں کی بیرک میں نہیں بلکہ کال کوٹھری میں قید کیا گیا ہے۔
یاسین ملک پر موجودہ مقدمہ کیا ہے؟
یاسین ملک پر موجودہ کیس دہشت گردی کی مالی معاونت کا ہے، جسے ایک خصوصی عدالت سن رہی تھی۔ اس کے جج کے بارے میں یاسین ملک کا کہنا تھا کہ کبھی وہ استغاثہ اور کبھی پولیس افسر بن جاتے ہیں۔ نہ اس خصوصی عدالت پر یاسین ملک صاحب کا اعتماد تھا اور نہ دنیا کا۔ اسی لیے یاسین صاحب نے خود پر لگے الزامات کا کسی وکیل کے ذریعے دفاع نہیں کیا۔ ان کا بس اتنا ہی کہنا تھا کہ اگر میں اتنا بڑا ہی دہشت گرد تھا تو کیوں بھارت کے رہنما مجھ سے ملتے رہے؟ کیوں انہیں بھارت نے مختلف جگہ خطاب کرنے کی اجازت دے رکھی تھی؟
یہ سب مقدمہ تو بہانہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ نریندر مودی ہر طرح کشمیریوں کی آواز دبانا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کشمیر کے نام نہاد حمایتی تو اپنے ہاں حکومتیں بنانے اور گرانے میں مصروف ہیں، کشمیریوں کے لیے بھلا کیا کریں گے۔ بھلے کشمیر کے حمایتی اپنے مفادات کو سامنے دیکھ کر کشمیر کو بھول جانا چاہتے ہوں۔ لیکن یاسین ملک جیسے آزادی کے متوالے پس زندان بھی عہد نبھانا جانتے ہیں۔ ان کو فرق نہیں پڑتا کہ کوئی حمایت کر رہا ہے یا نہیں۔ ان کو فرق نہیں پڑتا کہ اٹل بہاری واجپائی جیسا حکمران برسر اقتدار ہے یا نریندر مودی۔ وہ دشمن کے گھر میں، دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی آزادی مانگنا جانتے ہیں۔ یہ لوگ تو حریت کے دیوانے ہیں۔