کچھ نئے نقش محبت میں ابھارو یارو

کچھ نئے نقش محبت میں ابھارو یارو
سر کسی شوخ کی بلڈنگ سے مارو یارو


زلف کے پیچ میں لٹکے ہوئے شاعر کا وجود
تھک چکا ہوگا اسے مل کے اتارو یارو


وہ بھرے گھر سے گھسیٹے لیے جاتی ہے مجھے
کوئی بڑھ کر مری بیوی کو پکارو یارو


دل کے فٹ پاتھ کو ہموار بنانے کے لیے
اس سے دس بیس حسینوں کو گزارو یارو


درد تو اپنی کمائی کا ہوا کرتا ہے
باپ کا مال ہے کھا کھا کے ڈکارو یارو