کچھ مرے شوق نے در پردہ کہا ہو جیسے

کچھ مرے شوق نے در پردہ کہا ہو جیسے
آج تم اور ہی تصویر حیا ہو جیسے


یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال
خارزاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے


ساز نفرت کے ترانوں سے بہلتے نہیں کیوں
یہ بھی کچھ اہل محبت کی خطا ہو جیسے


وقت کے شور میں یوں چیخ رہے ہیں لمحے
بہتے پانی میں کوئی ڈوب رہا ہو جیسے


کیسی گل رنگ ہے مشرق کا افق دیکھ ندیم
ندی کا خوں رات کی چوکھٹ پہ بہا ہو جیسے


یا مجھے وہم ہے سنتا نہیں کوئی میری
یا یہ دنیا ہی کوئی کوہ ندا ہو جیسے


بحر ظلمات جنوں میں بھی نکل آئی ہے راہ
عشق کے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا ہو جیسے


دل نے چپکے سے کہا کوشش ناکام کے بعد
زہر ہی درد محبت کی دوا ہو جیسے


دیکھیں بچ جاتی ہے یا ڈوبتی ہے کشتئ شوق
ساحل فکر پہ اک حشر بپا ہو جیسے