کچھ اس طرح وجود مرا بے حسی میں تھا

کچھ اس طرح وجود مرا بے حسی میں تھا
احساس غم نہ لطف خوشی زندگی میں تھا


ابلیس کی ادائیں اڑا لے گئیں اسے
شامل جو ایک سجدہ مری بندگی میں تھا


چھوڑو خیال ہوش و خرد مجھ کو جام دو
اس آگہی سے بڑھ کے مزہ بے خودی میں تھا


سورج لٹا رہا تھا متاع حیات نو
تیرے بغیر دل کا کنول بیکلی میں تھا


میرے کرم سے ذرے بھی خورشید بن گئے
میں شمع زندگی تھا ضیاؔ تیرگی میں تھا