کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئے

کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئے
جیسے وہ مجھ کو واقف اسرار کر گئے


اقرار کر دیا کبھی انکار کر گئے
بے خود بنا دیا کبھی ہشیار کر گئے


یکتائی جمال کی حیرت نہ پوچھئے
ہر ماسوا کے وہم سے بے زار کر گئے


کچھ اس ادا سے جلوۂ معنی کی شرح کی
میرے خیال و فکر کو بے کار کر گئے


اللہ رے ان کے جلوۂ رنگیں کی فطرتیں
سارے جہاں کو نقش بہ دیوار کر گئے


وعدے کا ان کے ذکر ہی ماہرؔ فضول ہے
تم کیا کرو گے وہ اگر انکار کر گئے