کچھ دنوں اپنے گھر رہا ہوں میں
کچھ دنوں اپنے گھر رہا ہوں میں
اور پھر در بہ در رہا ہوں میں
دوسروں کی خبر تو کیا لیتا
خود سے بھی بے خبر رہا ہوں میں
وقت گو ہم سفر نہ تھا میرا
وقت کا ہم سفر رہا ہوں میں
زینۂ ذات کا سفر اور رات
دھیرے دھیرے اتر رہا ہوں میں
یک بہ یک کس طرح بدل جاؤں
رفتہ رفتہ سدھر رہا ہوں میں
تو بھی دیکھے تو اجنبی جانے
اب کے وہ سوانگ بھر رہا ہوں میں
بے حقیقت ہے شور شہر کہ اب
گنگناتا گزر رہا ہوں میں
آگ ہے اور سلگ رہی ہے حیات
راکھ ہوں اور بکھر رہا ہوں میں