کچھ دیر پہلے نیند سے

میں جن کو چھوڑ آیا تھا شناسائی کی بستی کے وہ سارے راستے آواز دیتے ہیں
نہیں معلوم اب کس واسطے آواز دیتے ہیں
لہو میں خاک اڑتی ہے
بدن خواہش بہ خواہش ڈھ رہا ہے
اور نفس کی آمد و شد دل کی نا ہمواریوں پر بین کرتی ہے
وہ سارے خواب ایک اک کر کے رخصت ہو چکے ہیں جن سے آنکھیں جاگتی تھیں
اور امیدوں کے روزن شہر آیندہ میں کھلتے تھے
بہت آہستہ آہستہ
اندھیرا دل میں، آنکھوں میں، لہو میں، بہتے بہتے جم گیا ہے
وقت جیسے تھم گیا ہے