کچھ دیر ہوئی ہے کہ میں بے باک ہوا ہوں
کچھ دیر ہوئی ہے کہ میں بے باک ہوا ہوں
جب اپنے ہی ماضی پہ المناک ہوا ہوں
تھی فکر جو محدود تو تھا خاک کا ذرہ
جب آنکھ کھلی زینت افلاک ہوا ہوں
قبل اس کے کہ باہر سے کوئی آ کے بتائے
میں اپنے ہی خود آپ میں چالاک ہوا ہوں
کیا ان کو خبر ہے جو فلک کہتے ہیں مجھ کو
میں اپنی بلندی کے لئے خاک ہوا ہوں
جب چاہے اتر جائے تری روح سے تمجیدؔ
کہتا ہے ترا جسم کہ پوشاک ہوا ہوں