کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں
کچھ بھی نہیں کہیں نہیں خواب کے اختیار میں
رات گزار دی گئی صبح کے انتظار میں
باب عطا کے سامنے اہل کمال کا ہجوم
جن کو تھا سرکشی پہ ناز وہ بھی اسی قطار میں
جیسے فساد خون سے جلد بدن پہ داغ برص
دل کی سیاہیاں بھی ہیں دامن داغدار میں
وقت کی ٹھوکروں میں ہے عقدہ کشائیوں کو زعم
کیسی الجھ رہی ہے ڈور ناخن ہوشیار میں
آئے گا آئے گا وہ دن ہو کے رہے گا سب حساب
وقت بھی انتظار میں خلق بھی انتظار میں
جیسی لگی تھی دل میں آگ ویسی غزل بنی نہیں
لفظ ٹھہر نہیں سکے درد کی تیز دھار میں