کچھ بس نہ چلا جذبۂ خود کام کے آگے
کچھ بس نہ چلا جذبۂ خود کام کے آگے
جھکنا ہی پڑا اس بت بدنام کے آگے
اک اور بھی حسرت ہے پس حسرت دیدار
اک اور بھی آغاز ہے انجام کے آگے
آ اور ادھر کوئی تجلی کی کرن پھینک
بیٹھے ہیں گدا تیرے در و بام کے آگے
یہ عشق ہے بازیچۂ اطفال نہیں ہے
کچھ اور بھی ہے کوچۂ اصنام کے آگے
یوں ان کی جفاؤں سے ملی ہم کو بصیرت
ہم جھک نہ سکے گردش ایام کے آگے
دن ڈھلنے لگا دل زدگاں دل کی خبر لو
اک سلسلۂ حجاز بھی ہے شام کے آگے
اب کچھ بھی نہیں حاصل تدبیر محبت
اب کچھ بھی نہیں نامہ و پیغام کے آگے
اک سحر سا طاری تھا ظہیرؔ اہل خرد پر
تھے مہر بہ لب حسن دل آرام کے آگے