کچھ عسکری صاحب کے بار ے میں

عسکری نے تنقید نہیں، آپ بیتی لکھی ہے۔ یوں شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے باب میں باضابطہ قسم کی تنقید سے قطع نظر، عام گفتگو بھی کسی نہ کسی سطح پر آپ بیتی ہی ہوتی ہے۔ یہاں ان ماہرین یامبتدین شماریات کاذکر نہیں جو ادب کو بھی جنس بازار جیسی کوئی چیز سمجھ کر تفہیم اور تجزیے کے نام پر ہی کھاتے کی تیاری میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہر نقاد جو تھوڑی بہت بھی ادب کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے، ادب کے مطالعے میں ان کیفیتوں، تاثرات اور ردعمل کے نتائج کو نظرانداز نہیں کر سکتا جن سے خود اس کی طبیعت اورشخصیت کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔


ادب پڑھتے، سمجھتے اور سمجھاتے وقت وہ ا س سے متاثر ہونے کے عمل سے بھی گزرتا رہتا ہے اور اگر اس کے مزاج پر وکٹورین عہد کی اشرافیت کا غلبہ نہیں اور وہ ایک بے روح تحمل، ضبط اور رکھ رکھاؤ کا خوگر نہیں ہے تو تخلیقی لفظوں کی گرہیں کھولتے وقت آپ سے آپ وہ اپنی شخصیت کی گرہیں بھی کھولتا جائےگا۔ تنقید کو اگر بعض مغربیوں نے UNFOLDING کا عمل کہا ہے تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اس عمل کا سرا صرف ادب یا ادیب کی شخصیت سے جڑا ہوا ہے اور اس کی حیثیت تنقید لکھنے والے کے نزدیک محض معروض کی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ خود تنقید لکھنے والے کی شخصیت کے حدود، ذہنی اور جذباتی روابط نیز اس کے باطنی ابعاد یا جمالیاتی اور روحانی مسائل اسے ادب کے مطالعے اور تجزیے کے دوران تجربے اور واردات کی کن کن بنیادوں تک لے جاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ساری سرگرمی ایک نوع کی ذہنی ورزش سے زیادہ بامعنی اور نتیجہ خیز نہیں ہوتی اور ہر تجربہ ان کے دماغ کی صرف اوپری پرتوں کومس کرتا ہوا فراموش کاری کی دھندمیں گم ہو جاتا ہے۔ وہ اگر سوچتے ہیں تو اس احتیاط کے ساتھ کہ ان کے حواس اور اعصاب کا کوئی حوالہ اظہار کے دریچے سے جھانکنے نہ پائے۔


پتہ نہیں اس میں کسی نفسیاتی خوف کا دخل ہوتا ہے یاتعقل کی توانائیوں کے حد سے بڑھے ہوئے اعتماد کا، بہر حال میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ا س قسم کی تنقید میرے لئے صبح کے اخبار یا سماجی علوم کے دائرے میں آنے والی عالمانہ تحریروں سے زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ جذبات میں غیر متوازن آلودگی عیب سہی لیکن ان سے یکسر گریز بھی ایک طرح کی بیماری ہے یا کم نصیبی۔ یہ وجہ ہے کہ تنقید کے بیشترحصے نے اگر کوئی خدمت انجام دی ہے تو حواس کو کند کرنے اور ذوق کو بگاڑنے کی۔


اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ادب کے ان دقیقہ سنج علماء کی خدمات کا منکر یا ان کے کارناموں کی قدر و قیمت کے احساس سے غافل ہوں، جنہوں نے تجربہ گاہوں میں مصروف کار سائنس دانوں جیسے انہماک کے ساتھ ادب کی تاریخی، تہذیبی، فلسفیانہ، نفسیاتی اور اسلوبیاتی تعبیریں فراہم کیں اور ایک عالم سے اپنی فضیلت کا لوہا منوایا۔ کوئی بھی اچھا نقاد نر انقاد نہیں ہوتا، نہ تنقید محض تاثرات کی غذاپر زندہ رہ سکتی ہے اور نہ صرف تخلیق کی باز آفرینی پر قانع۔


میں تو جب نقادوں کو ادب کا تجزیہ کرتے وقت علم وفضل کے دریا بہاتے اور شکن آلود پیشانیوں کے ساتھ ساحل پر کھڑے اس دریا کی موجوں کا تماشہ کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے پاؤنڈ کی ABC OF READING کے وہ صفحات یاد آتے ہیں جن میں اس نے مطالعے کی ابجد سمجھانے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اد ب پڑھنے والا چاہے جتنا سرگرم اور نکتہ رس ہو، اس کی حیثیت بے روح سلائڈس کا مشاہدہ کرتے ہوئے سائنس داں سے بہرحال مختلف ہوتی ہے۔ وہ اپنے حواس کی تجربہ گاہ میں ایسے آلات کی مدد سے یہ مشاہدہ کرتا ہے جو اس کی نجی ملکیت ہوتے ہیں اور ان کا عمل خود کار مشینوں کے عمل سے مماثل نہیں ہوتا۔ ایف آرلیوس صاحب نقادوں کے نقاد کہے جاتے ہیں۔ انسان کے سماجی اور عمرانی تجربوں سے بھی اتنی ہی دلچسپی رکھتے تھے جتنی شعر و ادب کے جمالیاتی مسائل سے لیکن اپنی آگہی کا سودا انہوں نے کبھی بھی اپنے ذوق سے نہیں کیا۔


عام تنقیدی رویوں کے تئیں اسی بے اطمینانی نے عسکری سے اس قسم کی باتیں کہلوائیں کہ، ’’مجھے نہ تو افسانہ نگار کہلانا پسند ہے، نہ تنقید نگار، نہ ادیب۔ میں تو اپنے آپ کو کو اس زمرے میں شامل سمجھتا ہوں جس کا نام ایک فرانسیسی ناول نگار (جس کا نام اس لئے حذف کرتا ہوں کہ اردو نقادوں کے ذہن پر بار نہ ہو اور فقرہ انگریزی میں لکھتا ہوں کیونکہ اس کا ترجمہ اردو میں نہیں کر سکا) BUGGERS LITTLE POOR رکھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ قاضی ہیں، نہ مفتی، نہ محتسب، نہ چوکیدار، بس اتنی اہلیت ضرورت رکھتے ہیں کہ جو کچھ دیکھا ہے اسے کہہ دیتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں اصل میں، افسانہ نگارہوں یا نقاد ہوں، البتہ اتنی بات مجھے معلوم ہے کہ میں لفظوں کو اس طرح جوڑ سکتا ہوں کہ تھوڑے بہت لوگ میری تحریر کو شروع سے آخر تک پڑھ لیتے ہیں۔۔۔‘‘ (دیباچہ، انسان اور آدمی)


’’چاہے میری تحریریں تنقیدی ہوں یانہ ہوں، میرے پاس کچھ پڑھنے والے ضرور موجود ہیں جنہیں یقین ہے کہ مجھے لفظوں کو جوڑ کر ایک دلچسپ مرکب بنانے کافن آتا ہے۔ اب یہ میرا فرض ہے کہ لفظوں کے ان مرکبات میں وہ تجربہ بھروں جو واقعی مجھے حاصل ہوا ہے اوراسے کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے مسخ نہ کروں، ورنہ پھر میں قاضی یا مفتی یا چوکیدار یا ادیب بن جاؤں گا اور اس گروہ سے خارج ہو جاؤں گا جس میں شامل ہوکر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اتنا اطمینان مجھے کہیں اور نہیں مل سکتا۔۔۔‘‘ (ایضاً)


’’چونکہ مجھے طرح طرح کی ’پسندیوں‘ سے متعلق کیا جاتا ہے، اس لئے میں پڑھنے والوں کو اتنا اور بتا دیتا ہوں کہ نہ تو میں انہیں دیر کی طرف بلا رہا ہوں نہ حرم کی طرف۔ چند باتیں دیکھ کر یا چند کتابیں پڑھ کر میرے اندر جو ردعمل پیدا ہوا ہے، میں تو صرف اسے بیان کر رہا ہوں۔ یہ ردعمل دوسروں کے لئے کہاں تک قابل قبول ہے، اس کا خیال رکھنا میرے لئے ضروری ہے۔ بلکہ اگر میں اس کا خیال رکھ کے لکھنے لگوں تو میری حیثیت ایک لکھنے والے کی نہیں رہے گی، کچھ اور ہو جائےگی۔‘‘ (ایضاً)


’’مجھ میں تحقیق کی صلاحیت تو الگ رہی، علمی تحقیق کا جذبہ تک نہیں۔ میں تو کسی کتاب سے صرف ادبی اور فنی دلچسپی لے سکتا ہوں۔‘‘ (دیباچہ، انتخاب طلسم ہوشربا)


’’یہ میں بھی جانتا ہوں کہ روح عصر کے اظہار کے لئے سرسامی اور وحشیانہ الفاظ کی ضرورت ہے، لیکن پھر بھی میں اس مقولے کی سچائی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ’دیوتا گہرائی چاہتے ہیں، روحانی آشوب نہیں۔۔۔‘ اور خصوصا ًادب کے دیوتا۔‘‘ (اختتامیہ جزیرے)


’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسن معنوی ہو یا حسن صوری سب روح کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ کسی لکھنے والے میں سب سے بڑی چیز دیکھنے کی یہی ہوتی ہے کہ وہ کتنی گہرائی سے بول رہا ہے۔۔۔‘‘ (ایضاً)


’’میرے دل میں اکثر یہ تمنا پیدا ہوئی ہے کہ کاش مجھے فلابیر جیسا سخت استاد ملتا جو کبھی میرے لکھے ہوئے سے مطمئن ہی نہ ہوتا، بلکہ ہر دفعہ کاٹ پھینکتا اور پھر سے لکھواتا تب ممکن تھا کہ میں واقعی ادب کی تحقیق کر سکتا۔‘‘ (ایضاً)


’’ہم لوگ زندگی کی بہ نسبت کتابوں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے روح عصر کی ترجمانی کی، ہم صرف اس روح کو نظرانداز کر گئے جو ماورائے عصر ہے۔‘‘ (ایضاً)


میں نے یہ اقتباس اس لئے دیے ہیں کہ جو بات عسکری کی تنقید کے سلسلے میں مجھے سب سے زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہے اسے میں نے دریافت نہیں کیا ہے، بلکہ خود عسکری نے جابجا اس کی جانب دو ٹوک انداز میں اشارے کئے ہیں۔ عام نقادوں کے ہاتھ تنقید کی بے حرمتی ہی نے ان سے یہ بات کہلوائی کہ وہ خود کو نقاد تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہیں۔ کچھ ایسا ہی جذبہ میر صاحب پر بھی اس وقت طاری رہا ہوگا جب انہوں نے یہ تقاضہ کیا تھا کہ انہیں شاعر نہ کہا جائے کہ انہوں نے درد و غم لاکھوں کئے جمع تو دیوان کیا۔ عسکری علم یا علمی تحقیق کے دشمن نہیں تھے۔ ان سا باخبر اور مختلف علوم پر قدرت رکھنے والا نقادجدید ادبی معاشرے میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ جتنے پیچیدہ، گہرے اور بلیغ تجربوں کو جس حیرت خیز سہولت، صفائی اور اعتمادکے ساتھ عسکری نے سمجھا اور سمجھایا ہے ا س کی مثال معاصر عہد میں مجھے اور کوئی نظر نہیں آتی۔


وہ شاید اردو کے واحد نقاد تھے جو مغرب کے بڑے بڑے ادیب اور عالم سے برابر کی سطح پر گفتگو کرتے تھے اور مرعوبیت یا کسی چھچھلی خوش گمانی کے شائبے کے بغیر مشرق کی ذہنی، حسیاتی اور تہذیبی انفرادیت اور برگزیدگی پراصرار کر سکتے تھے۔ اس معاملہ میں ہرچندکہ وہ کسی خانہ بندی کے قائل نہ تھے اور اپنی ادبی زندگی کے اوائل میں انہوں نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی تھی کہ ’’اگر ہمیں اپنے ادب کو انسانی تر کے کا ایک حصہ بنانا ہے تو ہم زیادہ عرصے تک اپنے آپ کو زمان و مکاں میں محدود نہیں رکھ سکتے۔ ادب میں ڈیڑھ اینٹ کی ا لگ الگ مسجدیں نہیں بن سکتیں۔ اگر ہم اردو ادب میں صرف نئی نئی راہیں کھول دینے پر ہی مطمئن نہیں ہیں، بلکہ واقعی ’’سونے کی سرزمینیں‘‘ فتح کرنا چاہتے ہیں تو جلد یا بدیر ہمیں نہ صرف اپنے پیش روؤں سے بلکہ ساری دنیا کے بڑے بڑے نثر نگاروں اور شاعروں سے اپنا مقابلہ کرنا پڑےگا۔۔ یہ کام آنے والی نسلیں تو خیر کریں گی ہی، مگر وہ ہمارے لئے بے فیض ہوگا۔ اس مقابلے اور موازنے سے پہلو بچانا گویا اپنے قد کو بڑھنے سے روکنا ہے۔‘‘


یعنی جس وسیع تناظر میں عسکری نے اپنی ادبی روایت اور فنی اقدار کا جائزہ لیا ہے، وہاں علاقائی، نسلی، ملکی، تہذیبی، لسانی امتیازات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عسکری نے مشرق کی ذہنی اور تہذیبی انفرادیت بلکہ ان معاملات میں مغرب پراس کی برتری کا تذکرہ جس شدومد کے ساتھ کیا ہے، بالخصوص گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں، اس کے پیش نظریہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اپنے ادبی ذوق اور شعور کی تمام تروسعت اور ہمہ گیر ی کے باوجود ہمارے معاصرین میں وہ شاید اپنی روایت کے سب سے بڑے مفسر اور عارف بھی تھے۔


اس ضمن میں بعض لوگ اس غلط نظری کے شکار ہیں کہ عسکری کے یہاں اپنی روایت کا شعور اس وقت رونما ہوا جب وہ ایک عمرادب کی خاک چھاننے کے بعد مذہب اور عقیدے کی بھول بھلیاں میں گم ہوتے گئے اور اپنے ادب یا مشرق کے جذباتی، سری اور روحانی تجربوں سے جب ان کی دلچسپی کی نوعیت رفتہ رفتہ تبدیل ہوتی گئی۔ لیکن عسکری نے یہ بات اپنے انتقال سے کوئی پینتیس برس پہلے کہی تھی، ’’جب ہم نے مغربی شعور کو قبول کیا تو واقعی ہم نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا مگر یہ شعور خو داپنے ہاتھوں اپنا گلاگھونٹ رہا ہے۔ خود مغرب ایک نئے شعور کے لئے مضطرب ہے۔ مغربی ادب کی حالت دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر یہ شعور کوئی فراہم کر سکتا ہے تو چین یا ہندوستان۔‘‘ (اختتامیہ، جزیرے)


’’اس ہماہمی اور گہماگہمی میں ہم ایک بات اور نظر انداز کر گئے ہیں، یعنی اردو ادب کے روایتی دھاروں سے واقفیت۔۔۔ موضوعات اور اسالیب بیان دونوں چیزوں سے متعلق۔‘‘ (ایضاً)


’’کسی قوم کا ادب ان عناصر۔۔۔ اس مخصوص مزاج اور فضا۔۔۔ کو پیش کرنے کی وجہ سے قابل قدر ہوتا ہے جو دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہیں کر سکتی اور یہ مخصوص مزاج اپنی روح کو عوام کی زندگی میں بسا لینے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہمیں دنیا کے ادب میں اپنی جگہ بنانی ہے تو دنیا ہم سے وہ مانگےگی جو صرف ایک ہندوستانی دے سکتا ہے۔‘‘ (ایضاً)


یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو ایک عرصے تک مغرب اور مغرب کے بھی زوال پرست رویوں کا علمبردار کہا جاتا رہا۔ جس طرح میراجی کی شاعری ترقی پسندو ں کے لئے ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ بن کر رہ گئی تھی، اسی طرح عسکری کی تنقید بھی سردار جعفری اور ان کے حلقے کے ادیبوں کے لئے ایک مسلسل آزمائش کی حیثیت رکھتی تھی اور ا س میں شک بھی نہیں کہ عسکری نے جس انتہا پسندانہ طریقے سے ترقی پسند افکار کا مذاق اڑایا وہ کہیں کہیں ایک غیرانسانی آہنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ایک زمانے میں عسکری کے ان جملوں پر کہ ’’ان کی (ترقی پسندوں کی) اصطلاحیں اتنی مادیت آلود ہوتی ہیں کہ ان سے تانبے کے زنگ آلود پیسوں کی بدبو آتی ہے۔ اس لئے میں نے کمیونسٹوں کا اخبار تک پڑھنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ دونی میں تو ننگی تصویروں والا رسالہ آ جاتا ہے۔‘‘ شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔


واقعہ یہ ہے کہ عسکری کے اس نوع کے جملے ان کی سنجیدہ فکر سے زیادہ فقرے بازی اور چھیڑچھاڑ کے اس میلان کی ترجمانی کرتے ہیں جس کی بنا پر ثقہ طبیعتیں ایک عرصے تک عسکری کے متین اور معقول رویوں کو بھی شبہے کی نظر سے دیکھتی رہیں اور خود عسکری نے بھی اپنے ایک معروف مضمون کا آغاز ان جملوں سے کیا کہ ’’بعض حضرات کو مجھ سے شکایت ہے کہ یہ اچھے خاصے علمی مضمون کو کرخنداروں کی زبان میں ادا کرکے مبتذل بنا دیتا ہے۔ خدا جانے ان بزرگوں کو میری ایک اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اور بنیادی ابتذال پسندی کا احساس ابھی تک کیوں نہیں ہوا۔ بڑے بڑے نظریوں اور مذاہب فکر پر غور کرتے ہوئے عام طور سے میں نے ان کے صحیح ترین تصور کے بجائے مقبول ترین تصور کو پیش نظر رکھا ہے۔‘‘


اصل میں عسکری کی دلچسپی اولاً اس حیاتیاتی مظہر سے تھی جسے بھانت بھانت کے تعصبات نے اخلاقی، مذہبی، سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی انسان اس طرح بنایا کہ وہ اپنے آپ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پس گذری ہوئی لکھو کھاصدیوں کے تجربات جو آدمی کی جان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور کبھی کسی اضطراب آسا لمحے میں ایک برقی رو کی طرح جاگ کر اپنے ہونے کا احساس دلا دیتے ہیں، تہذیب اور ترقی کے خودساختہ بتوں کی پرستش میں مگن معاشروں کے لئے بے معنی ہو گئے۔ عسکری کہ تجربات کے معاملہ میں زمان ومکاں کے رسمی اور فروعی تعینات پر ہمیشہ شک کی نظر ڈالتے رہے، اس مسئلے پر اظہارخیال کرتے ہوئے اس حد تک جا پہنچے جہاں بحث نظریاتی دائرے میں داخل ہو گئی اور بعض نیک نفس بزرگوں نے ان پر کچھ اس قسم کے اعتراضات کئے جس کی مثال ہمیں اقبال پر سید دیدار علی شاہ کے اعتراضات میں ملتی ہے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ عسکری کے لئے یہ مسئلہ بنیادی طور پر نفسیات اور اخلاق کا تھا۔


انسان کے سلسلے میں رائج تصورات کا مذاق عسکری نے اس لئے اڑایا کہ ایک تو خود انہیں کے لفظوں میں ’’انسان کے ایک مجرد مطلق تصور پر ایمان لانے کے بعد آدمی بے رحم ہو جاتا ہے۔ انفرادی معاملات میں بھی اور اجتماعی معاملات میں بھی، کیونکہ اجتماعی فائدے کے لئے حرام چیز کو بھی حلال کر دینے کا میلان ہر آدمی میں ہوتا ہے۔‘‘ دوسرے عسکری کا خیال تھا انسان پرستی آدمی کو لطیف، وسیع اور گہرے تجربات کی صلاحیت سے عاری کر دیتی ہے اور نئے تجربات اس کے لئے اس بنا پر بے معنی ہو جاتے ہیں کہ جو چیز پہلے ہی سے مکمل ہے وہ کسی اضافے کی محتاج نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بقول عسکری انسان بننے کے بعد آدمی اخلاقی معیاروں سے آزاد ہو جاتا ہے کہ ’’اخلاقی معیاروں کی ضرورت تو اس کے لئے ہوتی ہے جس کی شخصیت میں متضاد اور متناقص میلانات موجود ہوں اور ان میلانات میں سے بعض کو ابھارنا اور بعض کو دبانا لازمی ہو۔‘‘


’’انسان پرستی اور فرد اور قوم دونوں کے معاملے میں بڑی حد تک خودپرستی مشیخت مآبی بن جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان بجائے خود خیر مطلق ہے۔ صرف ماحول اسے بگاڑتا ہے۔ اگر ماحول کو خرابیوں سے پاک کر دیا جائے تو انسان مکمل ہو جائےگا۔ چونکہ کم سے کم نظریاتی طور پرماحول کی خرابیاں روس میں دور کی جا چکی ہیں اس لئے روسی اپنے آپ کو ہر طرح سے مکمل انسان سمجھنے کا حق دار سمجھتے ہیں اور اسکولوں کے بچے غیر ملکیوں سے پوچھتے ہیں کہ صاحب آپ کے ملک میں ریل گاڑی ہوتی ہے؟‘‘


اور۔۔۔


’’انسان اور ’انسانیت‘ کے موجودہ تصورات سے بڑ ا ادب نہیں پیدا ہو سکتا۔ یہاں ایک بات کا فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک تو مرے ہوئے اور زندہ سب آدمیوں اور ان کے اگلے پچھلے سارے تجربات کے مجموعے کو بھی انسان یا انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لمحے ہر آدمی کی زندگی میں آتے ہیں جب وہ اپنے ذاتی تجربات کا دوسروں کے تجربات سے مقابلہ کرتا ہے۔ اپنے تجربات کو تھوڑی بہت تعمیم دیتا ہے۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ ان تجربات کا مطلب کیا ہے۔ میں اور مجھ جیسے دوسرے آدمی کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کدھر جا رہے ہیں۔ اس قسم کا تفکر آدمی کے اندر ہزار قسم کی شادمانیاں، ہزار قسم کی مایوسیاں، ہزار قسم کا استعجاب پیدا کر سکتا ہے۔ جب آدمی اس انداز سے سوچ رہا ہو تو ہم بڑے ٹھوس معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان یا انسانیت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس قسم کے تفکر سے دامن بچا کر ادب کبھی بڑا یا قدآور نہیں بن سکتا۔‘‘


یہ افکار عسکری کے اپنے دماغ کی اپج بھی ہو سکتا ہے کہ رہے ہوں لیکن اس کی بنیادوں تک؟ وہ بلاشبہ اونامونوکی وساطت سے پہنچے تھے جس کی طرف عسکری نے انسان اور آدمی میں ایک سرسری سا اشارہ کیا ہے۔ اونامونوکا خیال تھا کہ زندہ احساس اور تعلق کی باہمی پیکار اب اس موڑ تک جا پہنچی ہے جہاں مفاہمت کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ پس یہ تصادم ایک دائم اور قائم سچائی ہے، اور اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ انسان اس تصادم کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا خود کو عادی بنا لے۔ اس طرح وہ افسردگی کو بھی زندہ رکھ سکےگا۔ اونامونو کے نزدیک اس افسردگی کا تحفظ اس لئے ضروری ہے کہ بالآخر اسی کی زمین سے ایک ہمہ گیر اخلاق کا انکھوا پھوٹتا ہے۔ پس یہ افسردگی مقد س ہے اور مثبت کہ اس کے بغیر انسان ہر نوع کی اخلاقی جدوجہد اور آرزومندی سے دور ہوتا جائےگا اور زندگی جیسی کچھ بھی ہے اسے بدلنے یا بہتر بنانے کی جستجو سے وہ ہاتھ دھو بیٹھےگا۔


یہاں ایک بار پھر اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ عسکری انسان پرستی سے محض اس لئے گریزاں تھے کہ ادب میں کسی بھی طرح کی مقصدیت کو وہ عیب جانتے تھے اور ان کے اس رویے کی اساس ترقی پسند تحریک کے مقاصد و منہاج سے ان کی بیزاری یا سماج دشمنی کے جذبے پر قائم تھی۔ بعض لوگوں کو عسکری کے یہ تمام مقدمات محض اس لئے ناقص دکھائی دیے کہ انسان اور آدمی کے خاتمے پر انہوں نے اسلام کے حوالے سے ایک بنا بنایا حل ڈھونڈ نکالا اور اس طرح مقصدیت کے جس طوق زریں کو وہ گلے سے نکال پھینکنے کے داعی تھے، آخرکار اسی کی ایک بدلی ہوئی شکل انہوں نے قبول کر لی۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ عسکری نے اپنے تمام مقدمات کی بنیاد اخلاقی معیاروں کو بنایا تھا اور اس مضمون کی اشاعت سے بہت پہلے بھی انہوں نے کہا تھا کہ،


’’دراصل ہمارے نظام زندگی نے ہمارے اندر ایک زنانہ پن اور انفعالیت پیدا کر دی ہے اور ہمارے وجود کی مرکزیت بالکل غارت ہو چکی ہے۔ اسی نسائیت نے ادب میں تاثریت کو پروان چڑھایا ہے۔ ہم زندگی کو ایک وحدت کی طرح سوچنے سمجھنے کی تاب نہیں رکھتے، ہمیں پینک میں جھومتے رہنے کے لئے صرف ایک تاثر چاہئے۔ ہم تاثر کی مدافعت نہیں کرتے، نہ جانچ پڑتال۔ ہر وہ تاثر جو ہوا میں اڑتا ہوا ہماری طرف آ جائے ہم اسے اپنے اوپر مسلط ہو جانے دیتے ہیں۔ ہم صرف ایک AEOTIAN HARP رہ گئے ہیں کیونکہ تاثر اپنے انتہائی درجوں پر پہنچ کر AUTOMATISM بن گئی ہے جو نہ صرف ادیب کی شخصیت بلکہ ادب اور انسانیت کے لئے ایک مہلک خطرہ ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو محسوسات کی گذرگاہ بن جانے دیا ہے اور ہمارے اندر تصادم باقی نہیں رہا۔۔۔‘‘


’’آج کل اپنے آپ سے گہرے اور بنیادی اخلاقی سوال پوچھنے لازمی ہیں۔ میں اس ضرورت سے واقف تو تھا، مگر تن آسانی کی وجہ سے میں نے روحانی کاوش گوارا نہیں کی اور بڑے بڑوں کا سر چکرا دینے والے ہمہ گیر سوالات سے جان چراتا رہا۔ میں نے ہمیشہ روحانی سمجھوتے سے کام لیا ہے۔ یہ چیز اتنی ضرر رساں نہ ہوتی اگر مجھے اخلاقی قدروں کی اہمیت کا احساس نہ ہوتا۔۔۔‘‘


مسئلہ صرف یہ ہے کہ ادب میں اخلاق کی نوعیت اور عام سماجی اخلاق سے متعلق تصورات کے فرق کو اگر سامنے نہ رکھا جائے تو بڑی مشکل پیش آئےگی۔ اوپر جو اقتباسات نقل کئے گئے، جزیرے کے اختتامیہ سے ماخوذ ہیں جس پر عسکری نے ۳ فروری ۱۹۴۳ء کی تاریخ دی ہے۔ گویا یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی جب ان کے ادبی شعور نے اظہار کے اولین دائروں میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت تک عسکری کی جو ادبی تحریریں سامنے آئی تھیں ان میں پھسلن، حرام جادی اور چائے کی پیالی جیسے افسانے بھی شامل ہیں۔ اب اگر سماجی اخلاقی کی ترازو پر ان افسانوں کو تولا جائے تو ادب اور اخلاق دونوں کا معاملہ مخمصے میں پھنس جائےگا۔ عسکری کو خود بھی اپنے رویے کے اس اندرونی تضاد کا احساس تھا کہ، ’’یہ جنسیاتی رجحان ہی ہے جس نے اکثر میرے افسانوں میں چھوٹے سر FALSE TONES پیدا کر دیے ہیں اور میری تکنیکی اور ہیئتی کوششوں کوکامیاب نہیں ہونے دیا ہے شاید رگوں میں ٹھنڈک پڑنے کے بعدمیں فن اور ہیئت کی طرف زیادہ کامیاب توجہ کر سکوں گا۔۔۔‘‘


لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’چونکہ میرا ادبی سرمایہ زیادہ تر جنسی قسم کا ہے، اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ خون کا دباؤ اور اعصاب کا تناؤ کم ہو جانے کے بعد میں اچھا فن کار تو ہو جاؤں گا، مگر شاید پھیکا، پھسپھسا بھی رہ جاؤں گا۔‘‘ ان اعترافات کی موجودگی میں عسکری کے معترضین کو یہ کہنے کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضروت نہیں پیش آئی کہ ان کی انحطاط پرستی اور فحاشی فرائڈ اور لارنس سے ان کی ذہنی قرب کا فطری نتیجہ تھی۔ خود عسکری نے اپنے مضامین میں فرائڈ اور لارنس کا ذکر کہیں کہیں ایک ایسی کیفیت کے ساتھ کیا ہے جسے وجد آفریں ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عسکری نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ انہوں نے نہ تو فرائڈ کو جنسیات کا ماہر سمجھ کر پڑھا تھا اور نہ ہی لارنس ان کے نزدیک محض سفلہ جذبات کا ترجمان تھا۔


فرائڈ کے نفسیاتی تحلیل کے تصور سے عسکری کی دلچسپی کا سبب یہ تھا کہ اس کی مدد سے انسان اپنے غیر شعوری دکھوں کو شعوری دکھوں میں تبدیل کر سکتا ہے اور یہی رمز انسان کے سارے فلسفے اور ادب کی بنیادی صداقت ہے۔ پھر فرائڈ نے جنس کے علاوہ لاشعور، انا، فوق الانا اور حقیقت کے متعدد منطقوں کو بےنقاب کرنے کی سعی بھی کی تھی۔ اسی طرح بقول عسکری لارنس کے یہاں انسان کی تنہائی کا جو ہیبت ناک تصور ملتا ہے اس کی مثال شاید کسی دوسرے ادیب کے یہاں شدت کے اس نقطے پر نہیں نظر آتی۔ اس سے قطع نظر عسکری نے بہت واضح الفاظ میں یہ بات بھی کہی ہے کہ گند ی سے گندی بات اچھے سے اچھا ادب بن سکتی ہے مگر جنسیت سے مغلوب ہوکر بڑا ادب نہیں پیدا کیا جا سکتا۔ کیونکہ بڑے ادب کی پیدائش کے لئے ہر قسم کا نسائی اور مجہول انفعال ایک رکاوٹ ہے اور خصوصا ًجنسی جذبے کے سامنے انفعال۔‘‘


دراصل ادب میں اخلاق کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے گناہ اور بدی کی حقیقت کو بھی سمجھ لیا جائے۔ ایک کے آئینے میں ہی دوسرے کا انعکاس ہوتا ہے۔ شاید اسی بات کو فراق نے یہ کہہ کر سمجھانا چاہا ہے کہ اخلاق کا پودا خشک اعمال کے اوسر میں نہیں اگتا۔ اسے اپنے نشونما کے لئے دریائے معاصی کے ساحلوں کی نم آلود زرخیز مٹی چاہئے۔


اب آئیے دوسرے مسئلے کی طرف۔ عسکری کی مشرقیت کا کچھ ذکر اوپر آ چکا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے متعدد کشادہ ذہن مشرقیوں کی طرح عسکری کی مشرقیت نے بھی مغرب اور مشرق کے ایک ہمہ گیر اور بسیط شعور کی وساطت سے اپنی تشکیل کی تھی۔ انہوں نے اس امرکا اعتراف کیا ہے کہ اردو ادب کے بار ے میں انہوں نے اگر کوئی سمجھ بوجھ کر بات کی ہے تو صرف اس لئے کہ انہوں نے مغرب کے لوگوں سے چند امتیازات سیکھے تھے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے مغرب کے ذہنی، جذباتی اور تہذیبی رویوں کو اپنی تنقید کا ہدف بھی بنایا اور اس عمل میں بھی عسکری کی سب سے بڑی توانائی وہ آگہی تھی، جو انہیں مغربی تمدن اور علوم کے وسیلے سے حاصل ہوئی تھی۔


اپنے ایک مضمون (مشرق ومغرب کی آویزش اردو ادب میں، اشاعت ۱۹۶۰ء) میں عسکری نے یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ مشرق میں چونکہ ہر طرح کے اسالیب فکر اور تجربات کو قبول کیا گیا ہے، اس لئے مغرب کی بہ نسبت مشرقی ادبیات کی فضا زیادہ کشادہ اور آزاد ہے۔ اس آزادی کا سبب یہ ہے کہ مشرقی عقیدے کے مطابق حقیقت کے تمام درجات ایک ہی بنیادی حقیقت (حقیقت اولیٰ) سے مربوط ہیں اور عالم کثیف کا پست ترین درجہ بھی حقیقت عظمیٰ سے منسلک ہے۔ انسان اور آدمی کے اختتامی جملوں میں عسکری نے یہ بات کہی تھی،


’’اسلام نے دل خوش کن باتوں سے کہیں زیادہ اصلی زندگی کی حقیقتوں کی طرف توجہ کی ہے۔ اسلام آدمی کی شخصیت کے متضاد اور متناقص مطالبات سے گھبرایا نہیں۔ اس نے کبھی آنکھ چرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہر تقاضے کو اس کی واجب جگہ دی ہے جس طرح آدمی کی زندگی میں الم اور نشاط دونو ں کی جگہ ہے، دونوں کا جواز ہے، اسی طرح اسلام نے بھی دونوں تصورات کی گنجائش رکھی ہے۔ انسان کو ظالم اور جاہل بھی کہا ہے اور اس کی خوبیوں کو سراہا بھی ہے۔‘‘


اسلامی ادب کے سوال پر عسکری اور فراق میں جو طول طویل بحثیں ہوئیں (من آنم میں فراق کے خطوط) اگر ان کے ساتھ ساتھ انتقال سے کچھ ہی دن پہلے عسکری کے محراب میں شائع ہوئے مضامین اور تبصروں کو بھی سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عسکری کی مشرقیت کا یہ بُعد ان کی عمر کے آخری چند برسوں میں ہرچند کہ کچھ زیادہ نمایاں اور باضابطہ طریقے سے روشن ہوتا گیا مگر اس کے عناصر شروع ہی سے ان کی تحریروں میں موجود تھے۔ اخلاق کے سلسلے میں ان کے خیالات اسی بُعد سے ہم رشتہ ہیں۔ ’’مشرق ومغرب کی آویزش اردو ادب میں‘‘ کا خاتمہ عسکری نے لارنس کے ان دو اقتباسات پر کیا تھا کہ ’’مشرق کے لئے نئی زندگی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشرق پہلے تو مغرب کو پوری طرح اپنے اندر جذب کرے اور پھر اپنا راستہ خود ڈھونڈے۔‘‘ نیز یہ کہ ’’اگر مغرب میں کوئی جاندار ادب پیدا ہوا تو وہ انسانوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں نہیں ہوگا بلکہ انسان اور خدا کے باہمی رشتے کے بارے میں ہوگا۔‘‘


اس طرح مشرق، مشرقیت، اسلام عسکری کے نزدیک عقائد اور تعصبات سے زیادہ فکر اور احساس کے اسالیب کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے چونکہ تمام افکار اپنے نجی تجربات کے حوالے کے ساتھ پیش کئے، اور یہی ان کی تنقیدوں کے آپ بیتی ہونے کا بنیادی سبب ہے، اس لئے مشرق اور علی الخصوص مسلمانوں کے تہذیبی اور روحانی مسائل کا ذکر بھی انہوں نے تواتر کے ساتھ کیا۔ ان کے نزدیک حال ہی کی ایک جہت تھا۔ پس طلسم ہوشربا کی اہمیت بھی عسکری کی نظروں میں صرف اس بنا پر نہ تھی کہ اس کے صفحوں میں اردو نثرنگاری اور افسانہ نویسی کے بعض بہترین نمونے موجود ہیں، بلکہ اس لئے بھی تھی کہ،


’’اس کتاب میں ہند اسلامی تہذیب اور مزاج کے چند خصوصی مظاہر بھی نظر آتے ہیں۔ یہ صرف ماضی کا ادب نہیں ہے بلکہ جب تک ہندوپاک برصغیر میں بسنے والی مسلمانوں قوم تخلیقی طورپر زندہ ہے اور اپنی تخلیقی روح سے آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کتاب کا تعلق ہمارے حال سے قائم رہےگا۔‘‘


جو حضرات عسکری کی مذہبیت یا ادب کے اخلاقی رول پر عسکری کے اصرار اور ترقی پسند تصورات سے وابستہ مقصدیت میں مماثلت کو بنیاد بناکر عسکری کے تضاد و تناقص پر زور دیتے ہیں انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ بات اگر اتنی ہی سہل ہوتی جیسی کہ انہیں دکھائی دیتی ہے تو پھر ترقی پسند حلقوں میں مذہب پر فرد جرم عائد کئے جانے کا جواز کیا ہوتا۔ مقصدیت کوئی بندھا ٹکا فارمولا نہیں ہے، نہ یہ کہنے سے کام چل سکتا ہے کہ سماجی مقصدیت سے انکار اور شعر و ادب کے جمالیاتی خط کا اقرار بھی ایک طرح کی (سیاسی، غیرسیاسی) مقصدیت ہے۔ تنقید میں ہمیں جو تضاد دکھائی دیتاہے بیشتر اسی تعمیم زدگی کا نتیجہ ہے۔


عسکری باضابطہ نقاد سے زیادہ ایک ادبی مفکر تھے۔ ان کے وہی مضامین اہم اور دلچسپ ہیں جن میں انہوں نے اصولی بحثیں اٹھائی ہیں۔ تجزیے کے معاملے میں وہ چند ایک مضامین کو چھوڑ کر بالعموم خام نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں تو مضحک۔ مجھے عسکری کی اس قسم کی تحریریں کہ،


’’ساں ما، ساماں! فی فرتیل زیلو‘‘ میں! یہ ایک حسرت بھری آہ اور کسی چیز کے کھو جانے کا افسوس ہے۔ کسی انجانی سرزمین میں داخل ہونے کا تحیر اور خوف بھی اس میں شامل ہے۔ ’’فرتیل‘‘ میں ’’ر‘‘ اور ’’ت‘‘ کی آواز بتا رہی ہے کہ وہ عدم کی دنیا میں پہنچنے کے بعد بھی کسی ٹھوس چیز کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی لطیف کیوں نہ ہو (یہ ’’ل‘‘ کی آواز سے ظاہر ہوتا ہے) آخری لفظ ’’زیلو‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ٹھوس چیزوں سے اس کا تعلق باقی نہیں رہ سکتا اور انہیں ترک کرنا پڑےگا۔ یہ لفظ (زیلو) ایسا ہے جیسے کوئی چیز ہاتھ سے نکل گئی ہو۔ یا پھر ایک آہ ہے۔ غرض کچھ اس قسم کی چیز ہوتی ہے میلارے کی نظم۔۔۔‘‘ (تنقیدکا فریضہ، ستارہ یا بادباں) پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔


عسکری اپنے اصرار کے باوجود کہ ادب میں ان کی دلچسپی صرف فنی تھی، دراصل رویوں اور انسانی تجربات کے نفسیاتی، جذباتی اور تہذیبی انسلاکات کے نقاد تھے۔ اپنے ادبی شعور کی تربیت و تشکیل کے دور میں جو دو اثرات ان کی شخصیت پر حاوی رہے وہ ان کے دو اساتذہ پروفیسر ایس سی دیب اور فراق صاحب کے تھے۔ دیب صاحب اگر ان منتخبات میں تھے جن سے اعلی تعلیمی اداروں میں علم کے وقار واعتبار میں اضافہ ہوا تو فراق صاحب ذہانت، طباعی اور نکتہ رسی کے اس گوہر نایاب کے امین ہیں جو صرف کتابوں میں نہیں ملتی۔ عسکری نے اپنی بصیرت کے ان سرچشموں کا تعارف ان الفاظ میں کرایا تھا کہ،


’’ان کی (دیب صاحب) تقریروں سے جو کچھ میں نے سیکھا اس کا تو ذکر ہی کیا! قدیم ادب کی جلیل القدر ہستیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں اور چہرے کی چمک، ابروکا نیا ئشانہ تناؤ اور تقدس و احترام کے مذہبی جذبے سے آواز کی تھرتھری کہ جب خود ان کی ذات عظمت و رفعت اخذ کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ صرف ان ہی چیزوں نے میرے لاتعداد شبہے اور کج خیالیاں زائل کر دیں اوریہی کچھ میں حضرت فراق گورکھپوری کے متعلق کہہ سکتا ہوں جو آج بھی اس جنس گراں کی پرستش کر سکتے ہیں جس کا بازار میں کوئی خواہاں نہیں۔‘‘


واقعہ یہ ہے کہ عسکری کی پوری شخصیت شعور کے ان دو بظاہر مختلف آنے والے دائروں میں ایک ساتھ گردش کرتی ہے۔ وہ اپنے علم اور آگہی کو ادبی ذوق اور تحسین کی دنیاؤں تک اس طرح لے گئے کہ ان کے نظام میں کوئی خلل واقع نہ ہو سکا۔ دوسری طرف انہوں نے ادب کے مطالعے کو کسی تاثراتی نقاد کے برعکس اس روشنی، گہرائی، وسعت اور دقیقہ شناسی کے موڑ تک پہنچایا جہاں مختلف علوم، فنون اور ذہنی وحسی تجربات کی پیچیدہ راہیں ایک طویل اور کشادہ شاہراہ میں مدغم ہو جاتی ہیں۔ وہ نہ تو صرف فنی مسائل کے نقاد تھے نہ خالص ذہنی مسائل سے سروکار رکھتے تھے۔ نطشے کی طرح اپنی تحریروں میں عسکری نے اپنے پورے وجود کو سمو دیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو نہ تو عسکری اتنے پیچیدہ نظر آتے نہ اس درجہ متنازعہ فیہ۔