کچھ اپنے کام نہیں آوے جام جم کی کتاب
کچھ اپنے کام نہیں آوے جام جم کی کتاب
کفایت اپنے کو بس ایک اپنے غم کی کتاب
نہیں خیال سوا اس کے اور ہے دل میں
جو مکتب عشق میں جیسے پڑھا صنم کی کتاب
خط آنے سے نہیں خاطر جمع ہوئے مطلق
اسے تو خط کہوں یا سبزہ یا ستم کی کتاب
شب فراق سے تیری گیا ہوں سب کچھ بھول
وقایہ کنز و ہدایہ سبھی علم کی کتاب
ہوا بہ مدرسۂ عشق جب سے طالب علم
بہت ہے اپنے مطالعہ کو ایک دم کی کتاب
نہ برہمن ہوں نہ ملا نہ مولوی نہ اتیت
جو پوتھی دیر کی پانچوں و یا حرم کی کتاب
کتاب حسن کی قاسمؔ علی مطالعہ کر
بنائی صانع نے صنعت سے یک قلم کی کتاب