کچھ تھا یا کچھ بھی نہیں تھا

وثوق سے نہیں کہاجاسکتاکہ مسلح یا غیر مسلح تاہم کچھ مرکب ہی سطح لئے بائیں طرف کی لمبوری اینٹوں والے ڈیڑھ مکان کو سمیٹے قدموں کو اوپر چڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے جیسے جاگتے وجود کو آگے ہی آگے لیے جارہاہے ۔جبکہ ڈیڑھ منزلہ مکان ایک معمر عورت اور دو نوعمر لڑکیوں کی غیر یقینی موجودگی باور کرارہاہے ۔ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ نوعمر لڑکیوں سے کوئی نہ کوئی لگاؤ ضرور ہوگامگر اب وہ دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔تاہم مرکب سطح سے گزرت ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ اگلے زمانے کا ایک کنواں جسے پورب دیس میں اتارا کہاجاتا تھا ، اس کے پاس ہی گائے بیل بھینس وغیر ہ کا جماؤ تھا۔پانی کی پیاس کو گویا تصویر کررہاہو۔جبکہ اس سے پرے جن جنتو کئی کئی مختلف ٹکڑیوں میں بنے اِدھر اُدھر چلے جارہے ہیں ۔کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ کون ہو کہاں کا قصد ہے !سوائے اس کے کہ بادی انظر میں ایک ہیولیٰ محبت کا پنکھ نچے ہوئے پرندے کی ہئیت میں دکھائی دیتاہے ۔اتنے میں شمال کی طرف سے داستان الف لیلیٰ کی نزاہت الرواح اور ابو الحسن کا نمودار ہونا اور سنانا اپنی تنگ دستی کی بپتا۔اس سے پہلے کہ زمین سے جو ،باجرا ،گییوں اور چاول وغیرہ ناپید ہونے لگے ،تو بددعا کرنا کہ ایسی دنیا ابدالابادکے لئے پیدانہ ہو۔پیدائش کے سارے ذرائع ناہنجار ،فروج اور تناسل اک دم غارت ہوجائیں ۔ویسے بھی اگلے وقتوں کی کہانیوں والے پرستان تو اب پائے نہیں جاتے کہ وہ جو کسی پوربی گاؤں میں مشہور تھا،ایک مکان کی کھلی چھت پر ایک نوعمرلڑکا سورہاتھا تبھی آسما ن سے پریوں کا ایک کھٹولا نیچے اترا اور مذکور لڑکے کو چشم زدن میں اوپر پرستان میں اڑالے گیا اورتب سے سے پریاں اسے ا کی ناف سمیٹے اسے انگور کھلاتی رہیں ۔اسے ایک محل میں بڑے آرا م سے رکھا۔خاص طور پر لڑکے کے ناف کی اتنی آبیاری کی ،انگور اور سیب کھلائے کہ وہ آدم زاد والی دنیا کو بالکل بھول گیا۔
دراصل بات یہ تھی کہ قدم تلے کوئی سطح تھی یا سطح نہیں تھی یاویرانے میں انتہائی خوبصورت آواز تھی۔بس یادآتاہے کہ نظر میں ایک ڈیڑ ھ منزلہ مکان کھنچ آیا تھا۔نوعمر بالی لڑکیاں شائد کوئی غیر مرئی آٹاگوندھ رہی تھیں کیونکہ دکھائی نہیں دیتاتھا اور جو عورت گندھے ہوئے آٹے سے سے غیرمرئی توے پر غیر مرئی روٹیاں سینک رہی تھیں اس کی طلب کاکیا نام تھا۔نام تھا بھی یا نہیں ۔محبت تھی یا ایک طرح کا لمس فریب لگاؤ تھا۔اس کی انگلیاں میری گوشت انگیز اٹھان کو چھوہی تھیں یا کچھ اتھام کر آپ ہی آپ بدمست ہورہی تھیں۔مگر کیا تھا وہ سب کچھ ،ایک کھوئی محبت کے کچھ دن تھے یا کچھ پل تلاش کرنے تھے ۔اس کی انگیا میں لال لال کچھ کیا تھا۔وہ اپنی کمر پر لال لال کردھن باندھے ہوئے تھی (اشتہائے ماضی کی علامت دنیا کے کسی حصے میں نہیں پائی جاتی )اس طرح کہ انگلیاں کھولیں تو بس کھولتی رہ جائیں ۔کچھ کھلے اور کچھ نہ کھلے ۔کیا یہی زندگی کا پہلا روپ تھا۔اگر وہ رام دئی لوہار کی بیٹی تھی تو اس کا لوہا کتنا گرم تھا اور اگر وہ بھواں نام کے گاؤں سے اپنی پھوپی اماں سے ملنے آنے والی اشرفن تھی تو وہ مجھے دیکھتے ہی فریفتہ کیوں ہوگئی ۔یا کیامیں ہی اللہ میاں کی دی ہوئی یا بخشی ہوئی قسمت میں درج کیا گیا تھا جب دیارِ عجیب میں جہاں کبھی بگولا اٹھتا تھا تومجھ میں لڑکپن کی کونسی اٹھان ہوتی تھی کہ اٹھتے بگولے کے پیچھے بے تحاشا بھاگتا۔ایک بار تو یہاں تک ہوا تھا کہ کسی ٹوٹکے کو آزماتے ہوئے اٹھتے بگولے کے بیچ ایک چاقودے مارا تھا۔اس خیال سے کہ وہ چاقو بگولے کے بھوت کو لگاہوگا اور خون نکلا ہوگا۔تو کیوں نہ بھوت کے خون کو کھوجنے چلا جاؤں ۔اس کئے بعد کئی دن بگولے کے بھوت کی کھوج میں رہا۔چاقو مارتا رہا۔لیکن افسوس بگولے کے بھوت کا پیچھا اکارت گیا۔کئی چاقو گم ہوگئے ۔نہ رام دئی ملی اور نہ اشرفن ۔اس طرح ایک دنیا اپنے آپ میں ختم ہوگئی۔