بھول جانا سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ ہے:انسانی دماغ پر نئی تحقیق
ہم اپنی زندگی میں لا تعداد باتیں یاد کرتے ہیں، لیکن کئی ان میں ایسی ہوتی ہیں جو ہم بھول جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ (اس سوال کا حتمی جواب تو شاید ہمارے پاس نہیں )۔ لیکن ہمارے عام تصور کے برعکس کہ یادداشت وقت کے ساتھ کمزور ہوتی ہے اور ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں، کچھ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ بھولنا کوئی بری چیز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ سیکھنے کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس تصور پر یقین رکھنے والے سائنسدانوں کی چند تحقیقات بین الاقوامی جریدے نیورو سائنس ریویو میں شائع ہوئی ہیں ۔
ہماری کسی بات کو دوہرا لینے یا دوبارہ یاد کرنے کی صلاحیت اس کے نتائج اور افادیت پر منحصر ہے۔ بھول جانا ہمارے دماغ کی عملی خصوصیت ہے جو اسے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کے قابل بناتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جو ہر دم تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس میں بھول جانا ایک نہایت فائدہ مند چیز ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے دماغ کے رویے کو لچک دار اور بہتر فیصلہ کرنے والا بناتی ہے۔ ایسی یادیں جو ہم نے ایسے حالات میں حاصل کی ہوں جو موجودہ ماحول سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، کو بھول جانا واقعی ایک مثبت بات ہے۔ یہ ہماری صحت کو بہتر کرتی ہے۔ اسی لیے سائنسدان یقین رکھتے ہیں کہ ہم غیر ضروری معلومات کو بھول جانا، ضروری معلومات کو برقرار رکھتے ہوئے سیکھ جاتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ بھول جانے کا نتیجہ معلومات کھو دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ لیکن جدید تحقیق یہ عندیہ بھی دیتی ہے کہ کم از کم کچھ صورتوں میں ضرور بھول جانا معلومات کی تبدیلی کے باعث ہوتا ہے نہ کہ معلومات کھو دینے کی وجہ سے۔ یہ نئی تھیوری کہ بھول جانا دماغ کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے، ڈاکٹر تماس رائن اور ڈاکٹر پول فریکلن نے دی ہے۔ ڈاکٹر رائن انسیٹیوٹ آف نیورولوجی میں بائیوکیمسٹری اور امیونولوجی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں اور ڈاکٹر پول ٹورانٹو میں نفسیات کے پروفیسر ہیں۔
ڈاکٹر رائن کہتے ہیں کہ یادیں ایناگرام سیلز نامی نیورونز کے گروپ کی شکل میں محفوظ ہوتیں ہیں۔ معلومات کو کامیابی سے یاد کر لینے کا مطلب ہوتا ہے کہ ایناگرام سیلز کے گروہ کو ری ایکٹیویٹ کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بھول جانا اس وقت ہوتا ہے جب ہم ان سیلز کے گروہوں کو ری ایکٹیویٹ نہیں کر پاتے۔ بھول جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنی یادداشت کے خلیات کھو دیے ہیں، بلکہ یہ عمل صرف اس صورت میں ہو رہا ہوتا ہے جب یہ خلیات تو موجود ہیں لیکن ان کے مخصوص گروہوں تک رسائی نہیں ہو پا رہی ہوتی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ کے پاس تجوری تو ہے لیکن آپ اس کو کھولنے کی چابی نہیں ڈھونڈ پا رہے ہوتے۔
ڈاکٹر رائن مزید کہتے ہیں کہ ہماری نئی تھیوری کے مطابق بھول جانے کا عمل نیورون کے سرکٹس کے نئے ماڈلز بن جانے کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے ایناگرام سیلز کے وہ گروہ جو قابل رسائی حالت میں ہوتے ہیں غیر رسائی والی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ چونکہ گردونواح کے حالات بھولنے کی شرح پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بھول جانا ایک طرح کا سیکھنے کا عمل ہے جس میں یاداشت تک رسائی تبدیل ہوتی ہے اور گردونواح کے حالات کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر فریکلن مزید کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ کئی انداز میں بھولتا ہے۔ لیکن ہر انداز اس بات کا غماز ہے کہ ایناگرام سیلز تک رسائی نہیں ہو پا رہی اور یاد کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔
کسی بیماری کی صورت میں یادداشت کھونے کے بارے میں دونوں ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہ بات کرنا اہم ہے کہ مخصوص حالات میں قدرتی بھول جانے کا عمل ریورس ہو سکتا ہے۔ کسی بیماری جیسا کہ الزائمر کی صورت میں قدرتی بھول جانے کا عمل ہائی جیک ہو جاتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ایناگرام سیلز کے گروہوں تک رسائی معطل ہو جاتی ہے اور نتیجتاً یادداشت کھو جاتی ہے۔