کوشش بھی کی تو دل سے نہ اس کو بھلا سکے

کوشش بھی کی تو دل سے نہ اس کو بھلا سکے
اور اس میں راز کیا ہے ابھی تک نہ پا سکے


میری سنو کہ چاہ نہیں بے دلوں کا کام
وہ جائے اس گلی میں جو خوں میں نہا سکے


قید قفس میں طاقت پرواز مٹ گئی
چھٹ تو گئے پہ سوئے نشیمن نہ جا سکے


آہوں سے کچھ ہوا نہ تڑپنے سے کچھ بنا
آنسو بھی دل کی آگ نہ اب تک بجھا سکے


گزرے بھی پاس سے تو حیا سے سمٹ گئے
سرکا سکے نقاب نہ آنچل ہٹا سکے


خود ابتدائے عشق بھی کی بھول بھی گئے
ہم بھول کر بھی ان کو نہ دل سے بھلا سکے


کیا آپ سے کہیں دل مضطر کا اپنے حال
اس کی تو چارہ گر نہ کبھی تاب لا سکے


خودداریاں بھی عشق میں زنجیر پا تھیں سوزؔ
اس آستاں پہ ہم نہ جبیں کو جھکا سکے