کورا کاغذ اداس ہے شاید
کورا کاغذ اداس ہے شاید
اس کو لفظوں کی آس ہے شاید
آج دریا کی ہے طلب مجھ کو
ایک مدت کی پیاس ہے شاید
جان اس نے خوشی سے دے ڈالی
اس کا قاتل بھی خاص ہے شاید
زہر پیتے ہیں ہاتھ سے اس کے
اس کے لب پر مٹھاس ہے شاید
جان ہتھیلی پہ تھی مری کل تک
جان اب تیرے پاس ہے شاید
شعر شمشیرؔ ایسے کہتا ہے
عمر اس کی پچاس ہے شاید