کورونا جیسی بیماریوں کے باوجود دنیا کے بڑے ممالک جنگوں کی تیاری کیوں کررہے ہیں؟
آج ایک اخبار کھولیں تو خبر ملتی ہے کہ انسانیت کے وبا میں گھرے ہونے کے باوجود دنیا نے بیس کھرب ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کر ڈالے، دوسرا اخبار کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس، امریکہ یا چین میں سے کسی نے آواز سے دس بارہ گنا تیزترین میزائل کا تجربہ کر ڈالا، تیسرا اخبار کھولیں تو شہ سرخی ملتی ہے کہ زمین، سمندر اور فضا کے بعد اگلا محاذ جنگ خلا میں سجنے جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہا ہے جب انسان دنیا کو منٹوں میں تباہ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے اور ہرو شیما اور ناگا ساکی پر گرا کر اس کا حقیقی تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ اس مہلک ہتھیار کے ہوتے ہوئے نئی نئی وار ڈاکٹرائن تشکیل دے کر نئے نئے ہتھیار ایجاد کرنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔
آج سے تقریباً دو برس قبل ویلیم گولڈنگ کا ناول لورڈ آف دا فلائز پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس نے ناول میں پلاٹ اس فلسفے کے گرد گمایا تھا کہ بنیادی طور پر انسان وحشی ہے۔ وہ اپنی حیوانی جبلت سے مجبور ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کرے۔ زن، زر اور زمین تو صرف ایک بہانہ ہے۔ یہ نہ بھی ہوں تو انسان ایک دوسرے کو مارنے کے اور بہانے تلاش کرلے گا۔ یہ ناول گولڈنگ نے عالمی جنگوں کے بعد لکھا تھا۔ پڑھنے کے بعد میرا تجزیہ تھا کہ شاید گولڈنگ عالمی جنگوں میں ہوئے مظالم کے اثر میں ہے، اس لیے ایسا کہہ رہا ہے۔ آخر انسانیت نے جنیوا کنوینشن اور ہیومینیٹیرین لا جیسے عالمی قوانین بھی تو منظور کیے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے چارٹر جیسے انسان دوست دستاویزات بھی تو تیار کیے ہیں، لیگ آف نیشن اور اقوام متحدہ جیسے ادارے بنا کر امن کے لیے اکٹھے ہونے کی کوششیں بھی تو کیں ہیں، انسانوں کے پاس ایدھی، مدرٹریسا اور ڈزمن ٹوٹو جیسے انسانوں کی مثالیں بھی تو ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ جنہوں نے کلاشنکوف اور ڈائنامائٹ ایجاد کیا تھا، اپنی ایجاد پر پشیماں بھی تو نظر آئے تھے۔ لہٰذا انسانیت ویسی نہیں جیسی گولڈنگ کہتا ہے۔ وہ تو امن پسند ہے۔
لیکن پھر یہ ہتھیاروں کی دوڑ کیا ہے؟ زمین کیوں ایک بڑے سے اسلحہ خانے کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے؟ کیوں ایٹمی ہتھیارو ں کے بعد بھی نئے ہتھیاروں کی ایجاد پر پابندی نہیں ہو پاتی؟ کیوں بعض انسانیت دوست عالمی قوانین صرف کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جاتے ہیں؟
ان تمام سوالوں کا جواب مجھے تو ایک ہی سمجھ میں آتا ہے۔ دنیا میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے سٹالک ہوم پیس ریسرچ انسیٹیوٹ کی رپورٹ سے منسوب ایک فقراہ ہے۔ بزنس انسائڈر نے درج کیا ہے:
"کیونکہ دنیا میں جنگیں جاری ہیں اور لوگ زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہیں ہیں، لہٰذا کاروبار بڑھ رہا ہے۔"
جی جناب، یہ ہے واحد جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے۔ 2021 کی ایک رپورٹ کے کچھ حقائق دیتا ہوں۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کی اسلحہ بیچنے والی سو بڑی کمپنیوں نے 2020 یعنی وبا کے سال میں جب تمام کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے، 531 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا تھا جو کہ 2019 کی نسبت 1.3 فیصد زیادہ تھا۔ ان کی فروخت 2015 سے سترہ فیصد زیادہ ہے۔ آئیے اب میں آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کی آمدن کے کچھ حقائق دیتا ہوں۔ بی اے ای سسٹمز یو کے نے بزنس انسائڈر کے مطابق 2018 میں بائیس ارب ڈالر کمائے۔ یہ کمپنی یورپ کی سب سے بڑی اسلحہ بیچنے والی کمپنی ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پرہے ریتھین یو ایس۔ اس نے تئیس ارب ڈالر کمائے۔ پھر ہے بوئنگ یو ایس، جس نے چھبیس ارب ڈالر کمائے اور پھر ہے لوکیڈ مارٹن۔ اس نے چوالیس اشاریہ نو ارب ڈالر کمائے۔ ان تمام کمپنیوں کا ریونیو آج پاکستان کی کل برآمدات کے برابر ہے یا اس سے زیادہ ہے۔ پاکستان جو بائیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے، مجموعی طور پر ان میں سے کسی ایک کے برابر بھی اپنی برآمدات نہیں کر پا رہا۔
یہ صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جو مجموعی طور پر اتنا نہیں کما پا رہے جتنا یہ کمپنیاں کما رہی ہیں۔ آج دنیا میں جو اسلحہ بنانے، خریدنے اور بیچنے کی دوڑ لگی ہے وہ انہی اسلحہ فروخت کرنےوالی کمپنیوں کی بدولت ہے۔ انہیں کی بدولت آج شام میں آگ ہے، عراق میں آگ ہے، سوڈان میں آگ ہے، لبیا میں آگ ہے اور جانے کن کن ممالک میں انسان لقمہ اجل بنتے جا رہیں ہیں۔ انسان مرتے ہیں تو ان کے پیٹ بھرتے ہیں، دنیا میں امن ہوتا ہے تو ان کی کمائیاں بند ہوتیں ہیں، غیر یقینی صورتحال ہوتی ہے، بدامنی ہوتی ہے تو ان کے کمانے کے موافق حالات ہوتے ہیں۔
آج ان کمپنیوں کے کچھ مالکان دنیا کو اسلحہ خانہ بنانے پر تلے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسانیت کے ماتھے پر وحشی ہونے کا لیبل لگتا ہے۔ باقی انسان یا تو مرتے ہیں یا ٹوٹی پھوٹی امن کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ جانے امن پسند کیوں غالب نہیں آ پاتے۔ حالانکہ بہت بڑی اکثریت میں ہیں۔ دنیا میں قیام امن کے لیے ان اسلحہ ساز کمپنیوں کو لگام ڈالنا ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالے گا کون؟