کوئی یقین کرے کیوں کسی گواہی پہ
کوئی یقین کرے کیوں کسی گواہی پہ
مجھے یقیں نہیں جب اپنی بے گناہی پے
اٹھے نہ ظل الٰہی پہ انگلی اب کوئی
یہ حرف ہار کا آئے کسی سپاہی پہ
نشان راہی کے راہوں پہ ہو نہ ہو لیکن
نشان راہوں کے اکثر ملیں گے راہی پہ
ادا یہ سیکھ ہی لیتا اگر پتہ ہوتا
سروں کے دام تو لگنے ہیں کج کلاہی پہ
رہوں گا جشن زدہ میں بہانے کیا کم ہیں
تو رقص دیکھنا میرا مری تباہی پہ
یہ زخم رستے ہیں میرے قلم ذریعہ ہے
گمان خون کا ہونا ہی ہے سیاہی پہ