کوئی شکوہ نہیں ہے راہبر سے

کوئی شکوہ نہیں ہے راہبر سے
ہٹا ہوں خود ہی اپنی رہ گزر سے


جسے دنیا حقیقت کہہ رہی ہے
وہ سچ پھیلا ہے اک جھوٹی خبر سے


نکالا ہے بہت مشکل سے میں نے
نیا رستہ پرانی رہ گزر سے


لگے گی اور بھی وہ خوب صورت
جو دیکھے خود کو وہ میری نظر سے


سفر میں کٹ گئی پھر عمر ساری
یوں ہی اک روز نکلا تھا میں گھر سے


نظارے اس لیے کم دیکھتا ہوں
کہ تو اوجھل نہ ہو جائے نظر سے


کوئی تو بات شاخوں نے کہی ہے
پرندے ڈر رہے ہیں اب شجر سے