کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں

کوئی حسرت کوئی ارمان نہیں رکھتے ہیں
ہم تو مدت سے یہ سامان نہیں رکھتے ہیں


زخم رکھتے ہیں نہ رکھتے ہیں نشاں اب کوئی
چاک ہو ایسا گریبان نہیں رکھتے ہیں


بے حسی کا یہ ہماری ذرا عالم دیکھو
جسم رکھتے ہے مگر جان نہیں رکھتے ہیں


ہم سے اغیار کی پہچان کہاں سنبھلے گی
جب ہم اپنوں کی ہی پہچان نہیں رکھتے ہیں


ہم سمندر کو تو محکوم نہیں رکھ سکتے
ہاں مگر کشتی میں طوفان نہیں رکھتے ہیں


جب سے مشکل ہوئے ہیں تب سے سکوں ہے سو اب
خود کو دانستہ ہی آسان نہیں رکھتے ہیں