کوئی حرف نفی نہ کام آیا (ردیف .. ی)

کوئی حرف نفی نہ کام آیا
کتنی سچی تھی دوستی اپنی


ٹھوکریں کھا کر کے سرخ رو ٹھہرا
اک دعا ہے یہ زندگی اپنی


اب کہاں ہے کوئی حریف اپنا
خوب ڈرتی ہے بے کسی اپنی


کیسے تاریخ کو بھلا ڈالوں
خوں میں ڈوبی ہے یہ صدی اپنی


کچھ نہ کھاتا ہوں کچھ نہ پیتا ہوں
بھوکی سوتی ہے مفلسی اپنی


خالی بوتل تکا ہی کرتی ہے
کتنی پیاسی ہے مے کشی اپنی


شاید اپنا خدا تراش لیا
اب کہاں ہے وہ بندگی اپنی


شاید اقبالؔ سے ڈری ہوگی
پہلے سرشار تھی خودی اپنی


سارے الفاظ ساتھ چھوڑ گئے
سادہ کاغذ ہے شاعری اپنی


کارواں چھوڑ کے وہ آیا ہے
اک مسافر ہے رہبری اپنی