کوئی دعا نہ کوئی چارہ گر سنبھالے گا
کوئی دعا نہ کوئی چارہ گر سنبھالے گا
کہ اب یہ زخم ہی میرا جگر سنبھالے گا
وہ عکس جس سے نہیں کوئی آئنہ محفوظ
درون آب وہی چشم تر سنبھالے گا
جو برقرار بہ نوع دگر ہے ٹوٹ کے بھی
وہ سلسلہ ہی ہمیں عمر بھر سنبھالے گا
وہ جس کی راہ میں گمراہ ہو گیا ہوں میں
وہی خدا مرا سمت سفر سنبھالے گا
خرد بنام جنوں قد کی آزمائش میں
فراز دار و رسن میرا سر سنبھالے گا