کوئی دیوار نہ در کھلتا ہے
کوئی دیوار نہ در کھلتا ہے
پر مرا عزم سفر کھلتا ہے
بڑی مشکل سے وہ در کھلتا ہے
یہ الگ بات مگر کھلتا ہے
ہم ہی دیوانے بنے پھرتے ہیں
کب ترا ذوق نظر کھلتا ہے
ماں تو رو لیتی ہے لیکن یارو
کب یہاں کوئی پدر کھلتا ہے
پردۂ عشق ہے لازم ورنہ
میں ادھر اور وہ ادھر کھلتا ہے
شعر در شعر کہے جاتے ہیں
تب کہیں جا کے ہنر کھلتا ہے
میرے نزدیک وہ عبدالقادرؔ
پورا کھل جاتا ہے گر کھلتا ہے