کیا جو اعتبار ان پر مریض شام ہجراں نے
کیا جو اعتبار ان پر مریض شام ہجراں نے
ٹھنڈائی میں دھتورا دے دیا عیسئ دوراں نے
پھرایا در بدر ان کو جہاں بانی کے ارماں نے
نچایا خوب یہ بندر جنون فتنہ ساماں نے
فجور و فسق کی تاریکیوں میں جب کوئی بھٹکا
دکھائی دور سے ہی اس کو لائٹ اس کے ایماں نے
سکوں ملتا ہے ان کو اور نہ ہم کو چین راتوں کو
پریشاں کر رکھا ہے آپ کے حال پریشاں نے
نہ ہے یہ کام وحشت کا نہ حرکت دست وحشت کی
گلا گھونٹا ہے دیوانے کا خود اس کے گریباں نے
پھرا کر در بدر چنوائے تنکے رات دن ان سے
بنایا بے وقوف اچھا جنون فتنہ ساماں نے
دیار دوست میں عشاق بیچارے جہاں بیٹھے
پکڑ کر کان اٹھایا خاک روب کوئے جاناں نے
گلوں میں رنگ و بو ہے اور نہ غنچوں میں تبسم ہے
بہاریں گلستاں کی بیچ لیں اہل گلستاں نے
جناب ناصح مشفق نصیحت جب لگے کرنے
دکھائی چونچ ہنس ہنس کر انہیں چاک گریباں نے