کتنوں نے جان وار دی ہرنی سی چال پر

کتنوں نے جان وار دی ہرنی سی چال پر
کتنے ہی لوگ مر مٹے اس خوش خصال پر


مجھ کو خبر ملی ہے کہ پریوں کے دیس میں
ہوتے ہیں روز تبصرے اس کے جمال پر


میں بھی سوال پوچھ کے خاموش ہو گیا
اس نے بھی چپ ہی سادھ لی میرے سوال پر


بھنورا کسی گلاب کو چھوتا ہے جس طرح
رکھتا ہوں اپنے ہونٹ یوں دلبر کے گال پر


کس کے ذرا سے ذکر پہ سانسیں مہک اٹھیں
چہرے کے رنگ کھل اٹھے کس کے خیال پر


پڑھتے ہیں لوگ آج بھی الفت کی داستاں
لکھتے ہیں لوگ آج بھی ہجر و وصال پر


چھانی ہیں اس نے جا بجا صحرا کی پستیاں
پہنچا ہے عشق پھر کہیں اوج کمال پر


ہارا ہوں اس دلیری سے لڑتا ہوا ذکیؔ
دشمن بھی پر ملال ہے میرے زوال پر