کتنی صدیاں نارسی کی انتہا میں کھو گئیں

کتنی صدیاں نارسی کی انتہا میں کھو گئیں
بے جہت نسلوں کی آوازیں خلا میں کھو گئیں


رنگ و بو کا شوق آشوب ہوا میں لے گیا
تتلیاں گھر سے نکل کر ابتلا میں کھو گئیں


کون پس منظر میں اجڑے پیکروں کو دیکھتا
شہر کی نظریں لباس خوش نما میں کھو گئیں


منتظر چوکھٹ پہ تعبیروں کے شہزادے رہے
خواب کی شہزادیاں قصر دعا میں کھو گئیں


سانپ نے ان کے نشیمن میں بسیرا کر لیا
پیڑ سے چڑیوں کی مہکاریں فضا میں کھو گئیں


کوئی کیا باب اماں آفت زدوں پر کھولتا
دستکیں گل زار طوفاں کی صدا میں کھو گئیں