کتنی دیر اور ہے یہ بزم طربناک نہ کہہ
کتنی دیر اور ہے یہ بزم طربناک نہ کہہ
راس آتی ہے کسے گردش افلاک نہ کہہ
کیوں ٹھہرتا نہیں گلزار میں کوئی موسم
کیا کشش رکھتی ہے خوشبوئے تہہ خاک نہ کہہ
دیکھ تو رنگ تمناؤں کی بیتابی کے
کل فنا ہے مگر اے صاحب ادراک نہ کہہ
درد کی آنچ ابد تک ہے کسی روپ میں ہو
آج کے پھول کو آئندہ کے خاشاک نہ کہہ
لفظ کی ضرب تو ہے صاعقہ و سنگ سے سخت
دل بہت نرم ہیں نا گفتہ و بے باک نہ کہہ
غم گساروں کو بھی ہے اپنے ہی آلام سے کام
دل پہ جو بیتی ہے اے دیدۂ نمناک نہ کہہ
شوق ہی زیست بھی ہے زیست کی آگاہی بھی
اس مسیحا نفس آزار کو سفاک نہ کہہ
دل فرہاد جنوں فہم کو ناداں نہ سمجھ
چشم پرویز تنک ہوش کو چالاک نہ کہہ
خود نمائی تھی کہ تھا محبس پندار کا خوف
قیس کے جیب و گریباں رہے کیوں چاک نہ کہہ
بجھ نہ جائیں کہیں دل اہل تمنا کے ضیاؔ
کیسے شعلوں سے ہے یہ جشن طرب ناک نہ کہہ