کتنے میں بنتی ہے مہر ایسی
کتنے میں بنتی ہے مہر ایسی
نا چیز احمد جاوید اویسیؔ
میرے سخن میں ہے ایک شے سی
آواز اتنی خاموشی ایسی
کل عاشقوں کا آتے ہی مذکور
کیا کیا نہ بہکے علامہ قیسی
اس منطقی پر اپنی نظر ہے
من وجہ ایسی من وجہ ویسی
یاں کا نہ ہونا بھی وہم ہی ہے
بطلان کس کا تحقیق کیسی
کھلتی نہیں ہے مجھ پر یہ دنیا
دل میں نہیں سی آنکھوں میں ہے سی
جتنی مسافت سر کر چکا ہوں
لگتی ہے وہ بھی ناکردہ طے سی
سوکھا پڑا ہے دریا تو کب کا
ہے موج خیزی ویسی کی ویسی
اب شہر سارا غرقاب جانو
اشکوں میں آئی یہ بوند کیسی
ساغر ملا ہے ساغر سا مجھ کو
اس میں بھری ہے مے کوئی مے سی
دیتا ہے ترک دنیا کی دعوت
جاویدؔ کی تو ایسی کی تیسی