کتنے امکاں تھے جو خوابوں کے سہارے دیکھے

کتنے امکاں تھے جو خوابوں کے سہارے دیکھے
ماورا تھے جو نظر سے وہ نظارے دیکھے


پردے اٹھتے گئے آنکھوں سے تو رفتہ رفتہ
برگ گل برف میں پتھر میں شرارے دیکھے


دل پہ اس وقت کھلا حوصلۂ غم کا جمال
اپنے ہر رنگ میں جب روپ تمہارے دیکھے


آسرے جاتے رہے آس ابھی باقی ہے
پو بھی پھوٹے گی جہاں ڈوبتے تارے دیکھے


دل کو خوں کرنے کی حسرت ہو اسے بھی شاید
صاحب سادہ اگر رنگ ہمارے دیکھے


خوب و نا خوب میں کیا فرق کریں ہم کہ یہاں
جب ہوا پلٹی تو مڑتے ہوئے دھارے دیکھے


مجھے اس بزم میں کہنا تو بہت کچھ تھا ضیاؔ
بجھ گئے لفظ جب آنکھوں کے اشارے دیکھے