کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے
کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں
تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے
اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے
وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے
سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا بس اب تو اماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی جنگل سکڑ گئے
اس بند گھر میں کیسے کہوں کیا طلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے
بے سلطنت ہوئی ہیں کئی اونچی گردنیں
باہر سروں کے دست تسلط سے دھڑ گئے