کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے

کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
تجھے جو پا نہ سکے زیست کو سنوار آئے


تھا جس پہ وعدۂ فردوس و عاقبت کا مدار
وہ رات ہم سر کوئے بتاں گزار آئے


ترے خیال پہ شب خوں تو خیر کیا کرتے
بہت ہوا تو اک اوچھا سا ہات مار آئے


متاع دل ہی بچی تھی بس اک زمانے سے
سو ہم اسے بھی تری انجمن میں ہار آئے


بڑے خلوص سے احوال پوچھنے کے لیے
گزر گئی شب فرقت تو میرے یار آئے


کسی کو حال بتانا ضرور ہی کیا تھا
اس انجمن سے ہم اپنے قصوروار آئے


نگاہ ناز مرے دل کے گھاؤ پر مت جا
خدا کرے کہ تجھے اپنا کاروبار آئے


یہ اور بات کہ ساقی سے قرض مل نہ سکی
حضور حضرت یزداں تو با وقار آئے