کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں

کسی طرف جانے کا رستہ کہیں نہیں
ایسا گھور اندھیرا دیکھا کہیں نہیں


کس ظالم نے پر پیڑوں کے کاٹ دیے
آگ اگلتی دھوپ میں سایہ کہیں نہیں


تشنہ روح کی پیاس بجھانے پہنچے تھے
دریا میں بھی پانی پایا کہیں نہیں


کانچ کی صورت سارے سپنے ٹوٹ گئے
چھم سے برسنے بادل آیا کہیں نہیں


محفل محفل اظہرؔ عمر گزاری ہے
ہم سا لیکن تنہا تنہا کہیں نہیں