کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے
کسی طلب میں ہوا میں نہ در بدر اب کے
رہا نگاہ کا محور بس اپنا گھر اب کے
نہ جانے کتنے ہی رستے تھے منتظر لیکن
سمٹ کے رہ گیا قدموں میں ہی سفر اب کے
یہ انتظار کی شدت نہ تھی کبھی پہلے
محیط لگتا ہے صدیوں پہ لمحہ بھر اب کے
بہار لالہ و گل کے قصیدے ختم ہوئے
خزاں کا مرثیہ پڑھتا ہے ہر شجر اب کے
یہ کیسا نشہ مسلط تھا اب کے ذہنوں پر
تباہیوں سے رہے سب ہی بے خبر اب کے
ثمر کی پروا کیے بن ہی ہم نے بویا ہے
زمین خواب پہ امید کا شجر اب کے
عجیب موسم کرب و بلا ہے گلشن میں
رکھا ہے غنچوں نے کانٹوں پہ اپنا سر اب کے
گھٹن میں وقت کی بارود بن گیا ہوں سخنؔ
نہ پھونک دے مجھے آ کر کوئی شرر اب کے