کسی سے لڑائیں نظر اور جھیلیں محبت کے غم اتنی فرصت کہاں
کسی سے لڑائیں نظر اور جھیلیں محبت کے غم اتنی فرصت کہاں
اٹھائیں کسی ماہ پیکر حسینہ کے جور و ستم اتنی فرصت کہاں
زمانے کی بے رحمیوں کے تصدق دماغ نشاط و الم ہی نہیں
دل اپنا کرے آرزوئے جفا یا امید کرم اتنی فرصت کہاں
ڈبو دیں مئے ناب کی مستیوں میں فلاکت کے نکبت کے احساس کو
بنا لیں کسی عامانہ سے کوزے ہی کو جام جم اتنی فرصت کہاں
ہوں آزاد افکار لیکن تفکر میں ڈوبے ہوئے سے رہیں رات دن
طبیعت کی بے وجہ افسردگی کے مزے لوٹیں ہم اتنی فرصت کہاں
نہ ماضی ہمارا نہ مستقبل اپنا کچھ اس طور سے حرف امروز ہیں
غم دوش یا فکر فردا میں اخترؔ کریں سر کو خم اتنی فرصت کہاں