کسی کو نیند ملی تو کسی کو خواب ملا
کسی کو نیند ملی تو کسی کو خواب ملا
ہر اک بشر کو یاں موقع انتخاب ملا
وہ ناپ تول کے پایا تھی آرزو جس کی
نہیں تھی آرزو جس کی وہ بے حساب ملا
کھلا ملا کوئی چہرہ ڈھکا ملا کوئی
سبھی کی ذات پہ ہم کو مگر حجاب ملا
نقاب اتنے ہیں چہرہ ہی بھول جائیں گے
اگر وہ شیشۂ دل میں نہ بے نقاب ملا
رہے سوال تو بے خوف ہی ہمارے مگر
سوال سے ہمیں سہما سا ہر جواب ملا
سبھی عذابوں سے پہلے یہ زندگی تھی ملی
سبھی عذابوں سے پہلے یہی عذاب ملا
اس اضطراب کے صحرا میں ہے سکوں کا گماں
ملا بھی تشنگی کو تو یہی سراب ملا