کسی کی زلف نہیں لب کی گرمیاں بھی نہیں

کسی کی زلف نہیں لب کی گرمیاں بھی نہیں
گلوں پہ آج تو آوارہ تتلیاں بھی نہیں


ابھی یہ حال ہوا اس پہ کشتیاں گزریں
وہ گاؤں جس پہ کبھی چھائیں بدلیاں بھی نہیں


ہمارا گھر ہے کہ دیواروں کی نمائش ہے
کوئی کواڑ تو کیا اس میں کھڑکیاں بھی نہیں


گراں تھی شب تو مری صبح بھی ہراساں ہے
ابھی افق پہ وہ پہلے سی سرخیاں بھی نہیں


اسیر جسم ہے جاں اور یہ بدن اپنا
کمال کا ہے قفس جس میں تیلیاں بھی نہیں


گئی ہے ان پہ بھی اب اس کی برق بار نظر
درخت جن پہ ہمارے تو آشیاں بھی نہیں


سلوک اس نے محبت میں وہ کیا ببیاکؔ
ہوا جو ہم سے عداوت کے درمیاں بھی نہیں