کسی کی یاد کو ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
کسی کی یاد کو ہم زیست کا حاصل سمجھتے ہیں
اسی کو راحت جاں اور سکون دل سمجھتے ہیں
سہارا ہے کہاں یا رب ترے کشتی شکستوں کا
نکل آتی ہے موج آخر جسے ساحل سمجھتے ہیں
دل غم دیدہ روتا ہے تری صحرا نوردی پر
مگر اے قیس ہم لیلیٰ کو بھی محمل سمجھتے ہیں
یہ ہے دور حقائق سحر و افسوں ہو گئے باطل
مگر کم ہیں جو سحر حسن کو باطل سمجھتے ہیں
کہاں ذرہ کہاں خورشید خوش فہمی ہے یہ اپنی
کہ خود کو جلوہ گاہ دوست کے قابل سمجھتے ہیں
عدم ہے اک نفس کا فاصلہ ہستی سے لیکن ہم
وہ غافل ہیں کہ اس کو دور کی منزل سمجھتے ہیں
کبھی محرومؔ ہم بھی زندگی پر جان دیتے تھے
مگر اب موت سے اس کو سوا مشکل سمجھتے ہیں