کسی کی راہ کا پتھر ہٹا رہا ہوں ابھی
کسی کی راہ کا پتھر ہٹا رہا ہوں ابھی
سفر کو اور بھی مشکل بنا رہا ہوں ابھی
اسے یہ جان کر اچھا بہت لگے گا مگر
میں اس کی یاد میں سب کچھ بھلا رہا ہوں ابھی
میں ساتھ اپنے ہی سائے کا چھوڑ دوں نہ کہیں
کہ سر پہ دھوپ غموں کی اٹھا رہا ہوں ابھی
حیات تو بھی تو دھوکے سے کم نہیں لیکن
فریب تیرے لئے سب سے کھا رہا ہوں ابھی
میں آندھیوں سے ڈرا کب کہ آج گھبراؤں
تو پھر دیے سے دیے کیوں جلا رہا ہوں ابھی
مجھے پڑھے تو کوئی کس طرح پڑھے ببیاکؔ
میں خود کو آب پہ لکھ کر مٹا رہا ہوں ابھی