کسی کی بے رخی کا غم نہیں ہے
کسی کی بے رخی کا غم نہیں ہے
کہ اتنا ربط بھی اب کم نہیں ہے
نہ ہوشیاری نہ غفلت اور نہ مستی
ہمارا اب کوئی عالم نہیں ہے
رگ جاں سے بھی وہ نزدیک تر ہیں
مگر یہ فاصلہ بھی کم نہیں ہے
یہاں کیا ذکر شرم و آبرو کا
یہ دور عظمت مریم نہیں ہے
فغاں اک مشغلہ ہے عاشقوں کا
یہ عادت بر بنائے غم نہیں ہے
فرشتوں کی یہ شان بے گناہی
جواب لغزش آدم نہیں ہے